شاہد اعوان، بلاتامل
کوئی زمانہ تھا جب ڈپٹی کمشنر کا کسی ضلع میں قیام ایک عرصہ تک رہتا تھا اور سوائے غیر معمولی حالات یا شکایت کے اسے وہاں سے تبدیل نہیں کیا جاتا تھا، یہی وجہ تھی کہ ڈی ۔سی جان لگا کر کام بھی کرتا تھا اور ضلع کی تعمیروترقی کے لئے پلاننگ بھی اپنی بساط سے بڑھ کر کرتا تھا ۔ آج کل حالات تو کیا انسان بھی بے اعتبار ہو گئے ہیں کوئی واقعہ رونما ہو گیا جس پر ڈپٹی کمشنر کا براہ راست اختیار بھی نہ ہو یا عوامی نمائندوں کی منشا کے برخلاف کوئی کام سرزد ہو گیا، ڈی سی کا زیر عتاب آنا بالکل بھی اجنبھے کی بات نہیں ہے۔ ان ’’صبرآزما‘‘ حالات میں بے چارے ڈپٹی کمشنر کو اپنی بقا کے لئے زیادہ دوڑ دھوپ اور پراگریس دکھانا پڑتی ہے اور اس بھاگ دوڑ کے لئے ایک وسیع اور تپتا ہوا صحرا اس کا منتظر ہوتا ہے حتیٰ کہ کبھی تو اسے گھنگرو باندھ کر ناچنا بھی پڑ جاتا ہے۔ میری عملی صحافت کی گزشتہ تین دہائیاں ذہن کے نہاں خانوں میں ابھی تازہ ہیں جب ضلع اٹک میں ایسے ایسے نامور ڈپٹی کمشنر گزرے جو کردار کے کوہِ ہمالیہ پر فائز سمجھے جاتے تھے انہوں نے دن دیکھا نہ رات، عوامی خدمت میں اپنے ماتحت افسران کو بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیتے تھے۔ لیکن کیا کہیں حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو جن کی طبع نازک پر معمولی سی چیز بھی گراں گزری تو سارا نزلہ ڈپٹی کمشنر پر جا گرا، حال ہی میں اس کی زندہ مثال سابقہ ڈی۔ سی اٹک علی عنان قمر کی ہے جنہوں نے اپنے مختصر دورِ تعیناتی کے دوران اٹک کو شہرت دلانے کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اور انہیں یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں، آج وہ زمین کے اوپر کہیں نظر نہیں آ رہے اور ایک ناکردہ گناہ کی سزا میں انہیں ضلع سے یوں بے دخل کر دیا گیا جیسے مکھن سے بال۔ اسی طرح گزشتہ ماہ ٹرانسفر کیے جانے والے ڈپٹی کمشنر اٹک عمران حامد ایک درویش صفت انسان تھے انہوں نے انتہائی مختصر وقت میں اٹک کے لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا مگر انہیں بھی اچانک بیک جنبش قلم تبدیل کر دیا گیا۔ بات ہو رہی تھی سابقہ ڈی سی کے عہدے پر کام کرنے والے افسران کی، تو عظمت علی رانجھا سے لے کر کیپٹن(ر) ثاقب ظفر ، مخدوم سجاد بھٹہ، رانا اکبر حیات جیسے عوام دوست ڈپٹی کمشنر اس ضلع میں رہ کر مثالی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ْ
اٹک جہاں مارشل علاقہ ہے وہاں یہ ولی اللہ کی دھرتی بھی ہے اور فقیر کی نظر میں دنیاوی حکمرانوں کے بجائے اصل حکومت آج بھی اللہ کے ان بندوں کے ہاتھ میں ہے جن کی پوری زندگیاں اللہ اللہ کرتے گزریں انہوں نے اپنی ساری عمر اللہ سے لو لگائے رکھی بدلے میں اللہ اپنے ان نیک بندوں کو دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی نہیں بھولا، درحقیقت وہی لوگ اصل حاکم اور بادشاہ ہیں۔ شاید اسی لئے ا ٹک کی دھرتی پر اللہ اپنے ایسے منتخب بندوں کی ڈیوٹیاں لگاتا ہے جن کے دلوں میں مخلوقِ خدا کے لئے کچھ کرنے کی تڑپ اور درد ہوتا ہے ۔ چند روز قبل ہمارے ضلع میں ایک نوجوان ڈپٹی کمشنر محمد نعیم کی تعیناتی عمل میں آئی ہے ان کی شخصیت اپنے نام کی طرح شروع دن سے ہی عوام کے خادم کی حیثیت سے سامنے آئی ہے انہوں نے ضلع سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے بالکل خاموشی سے تمام تحصیلوں کے دورے کیے اور عوام الناس کے مسائل کے حل کے لئے بیتاب نظر آئے۔ جیسے خوشبو کو سات پردوں میں قید کیا جائے مگر اس کی مہک کو چھپایا نہیں جاسکتا ۔ بندہ عاجز نے گزشتہ روز مشاہدے کی خاطر ان کے دفتر کی راہ لی، وہاں ایک درجن سے زائد لوگ ان کے منتظر تھے دوردراز سے آنے والے لوگ عموماٌ الصبح ہی اپنے علاقوں سے سفر کر کے ضلعی ہیڈ کوارٹر پہنچ جاتے ہیں، ڈی سی صاحب کے کچھ ذاتی مہمان بھی دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے جنہیں وہ اپنے دفتر میں بٹھا کر خود باہر نکل کر ڈائس پر آکھڑے ہوئے جو میرے لئے ایک نیا تجربہ تھا ۔۔۔۔ غالباٌ 90 ء کی دہائی کے وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آ گئے جب مخدوم سجاد احمد بھٹہ اپنے دفتر کے مین دروازے کے سامنے عموماٌ کھڑے ہو جایا کرتے اور آنے والے سائلین کی بات غور سے سنتے تھے۔ اس واقعہ کو دودہائیاں گزر چکیں اب نئی صدی ہے اور اس کے تقاضے بھی نئے ہیں ۔ پرانے وقت کی بیوروکریسی دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی ایک تو انگریز دور کے ’’لاٹ صاحب‘‘ کے پروردہ اور دوسرے قدرت اللہ شہاب کے پیروکار ۔ لیکن اگر نئی بیوروکریسی اور نوجوان افسران کو دیکھا جائے تو سوائے چند ایک کے بیشتر پر اللہ کا خاص کرم اور عوام کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ نوتعینات ڈی سی اٹک محمد نعیم نے اپنا ڈائس برآمدے میں لگا کر نئی صدی کے نئے تقاضوں میں زبردست اضافہ کیا ہے تاکہ کسی سائل کو ان کے دفتر میں داخل ہونے کے لوازمات سے بھی نہ گزرنا پڑے کیونکہ بعض دیہاتی لوگ اعلیٰ افسران کے دفاتر کی دبیز قالینوں اور افسرانہ رعب سے بھی اپنا مافیا لضمیر بتانے سے گھبرا جاتے ہیں ۔ جب افسر اور عوام کا فرق ہی مٹ جائے اور ضلع کا سب سے اعلیٰ افسر لوگوں کے درمیان کھڑا ہو کر ہمدردانہ طریقے سے ان سے ان کی زبان میں بات کرے تو حجاب کی دیواریں خود بخود مسمار ہو جایا کرتی ہیں۔ فقیر کو پہلی ہی ملاقات میں موصوف کا یہ انداز بے حد بھایا اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ ایسے نوجوان افسران کے کردار و مرتبے میں مزید ترقیاں عطا فرمائے۔
اٹک ہی کی تحصیل جنڈ میں ایک اور خوبصورت و ہنس مکھ روشن ضمیر اسسٹنٹ کمشنر عدنان انجم راجہ نے گزشتہ روز چارج سنبھالا ہے ضلع کی یہ دور افتادہ و پسماندہ تحصیل ایسے ہی ہمدرد اور انتھک آفیسر کی متلاشی تھی، عدنان راجہ اس سے قبل حسن ا بدال میں بھی بے مثال خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ واپس اٹک میں ایک بار پھر ان کی تعیناتی سے ڈی سی اور ان کی جوڑی بہت فٹ ہو گی اور وہ بے سہارا ومحروم طبقوں کی آواز بن کر خدمت کے نئے باب رقم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ۔ نئی آنے والی بیوروکریسی کو چاہئے کہ مذکورہ نیک سیرت افسران کی طرح عوام کی بھلائی کے لئے کام کریں اور دنیا کے ساتھ اپنی عاقبت بھی سنواریں، چندروزہ تعیناتی کے دوران لوگوں میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑیں جسے صدیوں یاد رکھا جائے۔
شاہد اعوان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔