تجزیہ :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
کہتے ہیں
” ہر شر کے اندر ایک خیر چھپی ہوتی ہے "
مثلا ، تاریخ بنی اسرائیل کا مطالعہ کریں
تو علم ہوگا
کہ ، فرعون مصر نے ،
اسرائیلیوں پر ظلم و ستم کئے ، انہیں غلام بناکر رکھا ،
یہانتک کہ جب اسے کاہنوں ، نجومیوں اور جوتشیوں نے
یہ بتایا کہ
تمہاری سلطنت کے اندر
بنی اسرائیل میں
ایک بچہ پیدا یوگا
جو تیری حکومت اور خدائی کو چیلینج کردیگا ، تو یہ جان کر
فرعون نے حکم جاری کیا
کہ آج سے بنی اسرائیل کے گھرانوں میں جنم لینے والا ہر بچہ قتل کردیا جائے ،
چنانچہ بنی اسرائیل کے ہزاروں بچے قتل ہوئے ۔ ان گنت حاملہ خواتین کے حمل گرادئیے گئے
لیکن اسی شر کے اندر
خیر کا ایک پہلو چھپا تھا
اور وہ اس طرح کہ
جب نبی موسیؑ پیدا ہوئے تو
فرعون کے شر سے بچنے کے لئے ان کی والدہ نے انہیں ایک ٹوکرے میں ڈال کر دریائے نیل کی لہروں کے سپرد کردیا
تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے ،
بچہ کس ماں ، کس باپ اور قبیلے سے تعلق رکھتا ہے
اور اس طرح اس کی جان بچ جائے ۔
قارئین کرام
واقعی فرعون کے شر میں بھی خیر کا پہلو پوشیدہ تھا ۔ اسرائیلی بچوں کے قتل کے حکم کے باوجود
حضرت موسی نہ فقط زندہ و سلامت رہے بلکہ اسی فرعون کے گھر پل کر جوان ہوئے کہ جس نے ان کے قتل کا حکم جاری کررکھا تھا اور پھر اسی فرعون کو اپنے بھائی ہارون کے ساتھ مل کر بحیرہ قلزم میں غرق کردیا ۔
حضرت محمد مصطفے ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو قریش مکہ کے ظلم و ستم اور شر نے ،
اپنا گھر ، گھرانہ اور شھر چھوڑنے پر مجبور کیا ،
مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی ،
بہ ظاہر یہ ایک بہت بڑا المیہ
اور تکلیف دہ صورت حال تھی
لیکن دنیاء نے دیکھا کہ وہی جماعت
پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر لوٹی
اور مکہ فتح کیا ۔
معلوم ہوا کفار مکہ کے شر میں خیر چھپی تھی جو فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہوئی ۔
اس طرح کی بیسیوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جہاں شر کے اندر سے خیر نے جنم لیا ۔
یہاں یہ بھی جان لیں کہ خیر کے لئے شر کا ہونا ضروری ہے ورنہ خیر کا وجود ہی ثابت نہ کیا جاسکتا ۔ اندھیرا نہ ہوتا تو اجالے کا تصور کہاں سے آتا ۔ بیماری نہ ہو تو صحت مندی کسے کہتے ۔
خالق کائنات نے آدمؑ ( نبی اللہ ) کی تخلیق کے ساتھ ہی ، اسی لمحے ، شر کی علامت کے طور پر شیطان یا ابلیس کے کردار کو بھی کائنات کی اسٹیج پر لا کھڑا کیا تاکہ خیر کی شناخت ہوسکے
لھذا اگر کہیں شر نظر آئے تو مطمئن رہیں
اس کے پیچھے پیچھے خیر کا کارواں بھی آرہا ہوگا ۔
مثال کے طور پر
پاکستان اس وقت جس سیاسی بھنور میں ہچکولے کھاتا نظر آرہا ہے اس صورت حال سے پریشان ہونے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ۔
بقول بہزاد لکھنوی
آتا ہے جو طوفاں آنے دو کشتی کا خدا خود حافظ ہے
ممکن ہے کہ ان ہی لہروں میں بہتا ہوا ساحل آجائے
اگر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو آگے کیا ہوگا۔ کیا اسمبلی کی بقیہ مدت یعنی ڈیڑھ سال کے لئے اپوزیشن اپنا وزیراعظم لائیگی یا صدر اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرائینگے ۔ اگر اپوزیشن نیا وزیراعظم لے آئی
تو بھی عمران خان جیتا ۔ کیونکہ اسے صرف حکومت سے نکالا جائیگا ، ملک سے نہیں ،
لھذا اپوزیشن میں بیٹھا ہوا یا سڑکوں پر آجانیوالا عمران خان ، وزیراعظم ہاؤس میں مقید عمران خان سے زیادہ آذاد ، مضبوط اور خطرناک ثابت ہوگا ۔
سب سے دلچسپ صورت حال تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجانے کی صورت میں پیدا ہوگی اور وہ اس لئے کہ ، آئین کے مطابق اپوزیشن آئندہ 6 ماہ تک دوبارہ تحریک عدم اعتماد نہیں لاسکتی اور اس طرح خان 6 ماہ کے لئے پکا اور بااختیار وزیراعظم ہوگا ۔
یہی وہ 6 ماہ ہونگے جس میں وہ اپنی پارٹی کے اندر موجود منحرفین اور اپوزیشن کا تیا پانچہ کرکے اسمبلیاں توڑ کر نئے الیکشن میں بھی جاسکتا ہے ۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ خان نے ساڑھے تین سال میں کیا تیر مارا جو چھ ماہ میں کر دکھائے گا
تو میرے خیال سے ، تحریک عدم اعتماد سے بچ جانیوالا عمران خان ، پہلے والا خان نہیں ہوگا بلکہ وہ
عمران خان سے چنگیز خان میں تبدیل ہو جائیگا اور اسی میں اس کی بقاء ہے ورنہ گدھ اسے نوچ کھائینگے ۔ یاد رہے اس بات کا اشارہ وہ میلسی اور کراچی کے خطابات میں دے چکا ہے ۔
یہاں یہ بھی واضع کرتا چلوں کہ جو لوگ یورپ اور امریکہ پر عمران خان کی تنقید یا ان ممالک سے دوری اختیار کرنے کو خان کی سیاسی غلطی سے تعبیر کررہے ہیں ، انہیں یہ جان لینا چاھئیے کہ عمران خان صرف جذبات کے زیراثر ایسی گفتگو نہیں کررہا بلکہ عالمی سیاست بدل رہی ہے اور نہائت خاموشی سے نیا سیاسی بلاک تشکیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ روس کا دن دھاڑے اور بلا خوف و خطر امریکہ اور یورپ کے محب اور منہ بولے بھائی ، یوکرین پر چڑھ دوڑنا اور چین سمیت کئی ممالک کا ، اس کے اس اقدام کی مذمت نہ کرنا ، اس بات کی علامت اور اشارہ ہے کہ اب عالمی سطح پر بھی ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی جاچکی ہے جس کے نتیجے میں چین ، روس ، پاکستان اور علاقے کے کئی دیگر ممالک ایک نئی طاقت بن کر ابھرینگے لھذا اس خطے میں صرف اسی لیڈر کو اس بلاک کی حمائت اور پشت پناہی حاصل ہوگی ، جو ان کے موقف کی تائید میں کھڑا ہوگا نہ کہ امریکہ اور یورپ کی ہاں میں ہاں ملانے والا ۔
آخر میں مجھے اپوزیشن کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے سوئے ہوئے شیر کو جگا کر اس کا کام آسان کردیا ۔ اپوزیشن زندہ باد ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔