نادر شاہ اور کوہ نور ہیرا اٹک میں
"آزاد دائرۃ المعارف(وکی پیڈیا)”میں کوۂ نور ہیرا کے متعلق لکھا ہوا ہے کہ :”کوہ نور جنوبی بھارت کے علاقے گولکنڈہ سے ملا۔ کئی راجے مہاراجے نسل در نسل اس ہیرے کے وارث بنے۔۔۔ ابراہیم لودھی کی والدہ” بوا بیگم” نے مغل شہزادے ہمایوں کو نذرانے میں دیا اور اس طرح یہ ہیرا دہلی کے مغل بادشاہوں کے پاس رہا۔1739ء میں نادر شاہ نے جب ہندوستان فتح کیا تو اسے اپنے ساتھ ایران لے گیا اور غالباً اسی نے اس ہیرے کا نام اس کی چمک دمک دیکھ کر کوہ نور رکھا۔ احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کا جرنیل تھا ۔نادر شاہ کے قتل کے بعد افغانستان کا علاقہ احمد شاہ ابدالی کے قبضہ میں آ گیا۔ یہ ہیرا بھی احمد شاہ ابدالی کے قبضہ میں رہا۔ اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے شاہ تیمور اور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع والیِ قندھار کے پاس رہا۔ جب اس کے مخالفین نے اسے تخت سے معزول کر دیا تو وہ بھاگ کر ہندوستان آیا تو یہ ہیرا اس کے ساتھ تھا، یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے پناہ دی۔۔۔ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا شاہ شجاع سے طلب کیا مگر شاہ نے جواب دیا کہ اس ہیرے کو قرض کے عوض کابل کے تاجروں کے پاس بطور رہن رکھوا چکا ہے۔ اس پر مہاراجا غضب ناک ہو گیا اس نے شاہ شجاع کے خاندان کو اندرون لاہور مبارک حویلی میں سخت پہرے میں رکھا ۔۔۔تین دن کی ناقابل برداشت ذلت اور سختیوں سے تنگ آ کر شاہ شجاع نے ہیرا رنجیت سنگھ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ ہیرا مہاراجا رنجیت سنگھ کی خلعت کی زینت بنا رہا۔ 1839ء میں مہاراجا کا انتقال ہو گیا اس کے بعد خالصہ دربار سازشوں کا گڑھ بن گیا۔ سکھ قوم آپس میں ٹکراتی رہی اور کمزور ہوتی گئی۔ 1846ء میں سکھ انگریز جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی یہ ہیرا بھی برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا۔ سکھ حکمران مہاراجا دلیپ سنگھ سے یہ ہیرا برطانیہ کے ہاتھ لگا اور یہ ہیرا سر لارنس گورنر پنجاب کے پاس موجود رہا اسے ایک حکم ملا کہ خفیہ طور پر یہ ہیرا لندن بھیجا جائے اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لندن میں اس ہیرے کو تراشنے کے بعد تاج برطانیہ کی زینت بنایا گیا۔ اب تاج برطانیہ کی زینت ہے”۔
بین الاقوامی شہرت کے حامل اس قیمتی ہیرے کا ذکر کبھی اٹک کے ساتھ نہیں کیا گیا؛لیکن اس ہیرے کی عالم گیر شہرت کی وجہ سے اس کا ذکر ہر اُس علاقے کے ساتھ ہونا چاہیے،جہاں سے یہ گزرا یا جہاں کچھ مدت اسے رکھا گیا ہو۔۔”تاریخ صوبہ سرحد”میں لکھا ہے کہ جب نادر شاہ ہندوستان پر حملے کے لیے آیا تو :”اپنے قیامِ پشاورہی کے دوران نادر شاہ نے اپنی فوج کا ایک بڑاحصہ اٹک روانہ کر دیا تھا۔۔۔کرنال کے قریب محمد شاہ رنگیلا نے نادر شاہی لشکر کامقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔۔۔12۔مئی 1739 کو ایک دربارِ عام منعقد ہوا۔جس میں شاۂ دہلی نے کوۂ نور ہیرا بادشاہ کے حوالے کیا۔جاتے جاتے نادر شاہ ،شاۂ جہان کا بنایا ہواکروڑوں روپے کی مالیت کا تختِ طاؤس بھی اپنے ساتھ لیتا گیا "ـ(1)۔
"تاریخِ افغانستان”میں اس واقعہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے:”نادر شاہ نے 58 دن دہلی پر حکومت کرنے کے بعد اقتدار محمد شاہ کو واپس کر دیا مگر اس دوران وہ ہندوستان کا سارا خزانہ لوٹ چکا تھا۔مغلوں کا نادرو نایاب ہیرا ،شاۂ جہاں کا بنوایا ہوا شہرۂ آفاق تختِ طاؤس ۔۔۔ساتھ لے کر اسی سال درۂ خیبر کے راستے افغانستان واپس آ گیا”(2)۔
نادر شاہ یہ ہیرا لے کر ضلع اٹک سے گزرتا ہوا واپس چلا گیا۔شہرۂ آفاق”تخت ِطاؤس”بھی اٹک سے گزر کر ایران پہنچا۔نادر شاہ سے "کوۂ نور "ہیرااحمد شاہ ابدالی کے پاس آیا ۔ احمد شاہ ابدالی سے تیمور،شاہ زمان اورشاہ شجاع تک پہنچا۔شاہ شجاع اس ہیرے کو اپنے تاج میں سجائے رکھتا تھا۔جب شاہ شجاع سے اس کے بھائی شاہ محمود نے حکومت چھین کر اسے در بہ در کر دیا تو عطا محمد خان والی کشمیر کی معمولی امداد سے”دسمبر1811ء میں شاہ شجاع نے پشاور کو فتح کرنے کی آخری کوشش کی۔اس میں بھی اسے کامیابی نہ ہوئی۔۔۔شاہ شجاع بھاگ کر اٹک[قلعہ]میںپناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔۔۔اٹک کے قلعہ دار۔۔۔جہاں داد خان کی نظر کوۂ نور ہیرے پر تھی۔۔۔لیکن شاہ شجاع کوۂ نور دینے سے مسلسل انکار کرتا رہا۔ان دنوں عطا محمد خان بھی اپنے بھائی جہان داد کو ملنے اٹک آیا ہوا تھا۔وہ شاہ شجاع کو آہنی پنجرے میں قید کر کے اپنے ساتھ کشمیر لے گیا”(3)۔
یوں شاہ شجاع کے ساتھ کوۂ نور ہیرا کچھ عرصہ "اٹک قلعہ”میں بھی رہا اور بعد ازآں یہاں سے شاہ شجاع کے ساتھ ہی کشمیر منتقل ہو گیا۔کشمیر پر سکھوں کی حکومت قائم ہوئی تو یہ ہیرا رنجیت سنگھ نےشاہ شجاع سے حاصل کر لیا،جو ان دنوں عطا محمد خان کا قیدی تھا۔بعد ازآں سکھوں سے یہ ہیرا انگریزوں نے چھین کر برطانیہ بھیج دیا ۔
حوالہ:
(1)محمد شفیع صابر،تاریخ صوبہ سرحد،یونی ورسٹی بک ایجنسی،پشاور،اگست 2019،ص359
(2)مولانا محمد اسماعیل ریحان،تاریخ افغانستان،جلد اول،س۔ن،ص183
(3)محمد شفیع صابر،تاریخ صوبہ سرحد،یونی ورسٹی بک ایجنسی،پشاور،اگست 2019،ص401
ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “نادر شاہ اور کوہ نور ہیرا اٹک میں”
Comments are closed.