شاہد اعوان، بلاتامل
یار لوگ الف لیلوی اور لوک داستانوں کو من گھڑت اور خیالی قرار دیتے ہیں اور ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ عشق ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا عشق کی صداقت اور حقانیت ایسا موضوع ہے جس پر ہزاروں لاکھوں کتب لکھی جا سکتی ہیں۔ فقیر کا موضوع اکیسویں صدی کے اس پر فتن دور میں ایک ایسی حقیقی عشقیہ داستان ہے جس کا ایک ساتھی دنیا میں نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے جیون ساتھی کو بھول نہ سکا۔ خواجہ غلام فریدؔ نے کیا خوب کہا ہے:
تئیں باجھ تھئے سنج ویڑے او یار
وَل وَس سجن آنہڑے او یار
یہ8اور9فروری کی نصف شب کا عمل تھا بندہ فقیر کی خواب میں محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم تشریف لائے۔۔۔ انہیں اپنے غریب خانے میں دیکھ کر دل اس زور سے دھڑکا کہ شاید سینے سے باہر نکل آتا۔ اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے ’’شاہد بھائی! آپ کا بہت شکریہ، آپ نے انگریزی میں میڈم ہینی کے بارے میں جو کالم لکھا تھا وہ میری اہلیہ کو بہت پسند آیا ہے انہیں اسے پڑھ کر بے حد خوشی اور راحت ملی ہے ان کے بارے میں لکھتے رہا کریں۔‘‘
خواب میں ڈاکٹر خان کی زبان سے یہ حوصلہ افزا توصیفی کلمات سن کر میری آنکھ کھل گئی وقت دیکھا تو رات کے 2.30بج رہے تھے حیرت و خوشی کا یہ عالم کہ محسنِ پاکستان اور بندہ فقیر کے خواب میں!!! بس پھر اس کے بعد نیند نہ آئی ۔ مذکورہ کالم کوئی ایک ڈیڑھ ماہ قبل ’’مادرِ ملت ثانی‘‘ کے زیر عنوان لکھا گیا تھا جسے میں بھول چکا تھا۔ الصبح رات والے خواب کا تذکرہ میرے ممدوح و بے حد نفیس اور پیارے انسان محترم جبار مرزا سے کیا تو وہ بھی خوشی سے نہال ہو گئے ۔۔۔ ان کا شمار ڈاکٹر صاحب کے اُن چند قریبی دوستوں میں ہوتا ہے جنہوں میں زندگی کا بیشتر حصہ محسنِ پاکستان کے نام کر رکھا ہے، یہ دوستی اور تعلق اتنا گہرا تھا کہ مرزا صاحب کی دو صاحبزادیوں کے نکاح کے ڈاکٹر صاحب گواہ بھی بنے اور دائمی محبتوں اور عقیدتوں کا یہ رشتہ دستور قائم ہے۔ خواب کا احوال انہیں سنایا تو حکم ملا کہ اس واقعہ کو سپردِ قرطاس ضرور کروں کہ عشق و محبت کا رشتہ دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ جبار مرزا بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر خان اور محترمہ ہینی صرف میاں بیوی نہ تھے بلکہ وہ نصف صدی سے زائد پر مشتمل ایک لازوال عشقیہ داستان تھی جنہیں دونوں نے یوں نبھایا کہ وہ ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوئے اگر میڈم اپنے والدین کو ملنے دیارِ غیر جاتیں تو وہ دن ڈاکٹر خان کے لئے ہجرو فراق کی گھڑیاں بن جایا کرتی تھیں۔ بقول شاعر
ترے فراق میں مجھ پہ وہ سانحے گزرے
جو دن پہ گزرتے تو رات ہو جاتا !
یہی حال میڈم ہینی کا بھی ہوتا کہ انہوں نے اپنے مجازی خدا کی خاطر اپنا دین و دھرم تک قربان کر دیا اور اگر وہ پاکستان آنے سے انکار کر دیتیں تو پاکستان شاید کبھی ایٹمی قوت نہ بن سکتا!! بقول جناب جبار مرزا یہ جوڑی اکیسویں صدی کی عشقیہ داستانوں میں سے ایک ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے اخلاقی راہنمائی کے ساتھ ساتھ وفاداری کی عظیم داستان بنی رہے گی اور جو ماضی کی تمام لوک داستانوں پر غالب ہے۔
کتھے لیلیٰ، کتھے مجنوں، کتھے سوہنی مہینوال
کتھے رانجھن ، کتھے کھیڑے، کتھے ہیر سیال
کتھے سسی، کتھے پنوں، کتھے او درد کِشال
ڈاکٹر خان دنیا سے پردہ کر جانے کے باوجود اپنی شریکِ حیات کو نہیں بھولے، چونکہ اُن کا حکم ہے کہ فقیر ان کی اہلیہ محترمہ پر کچھ لکھتا رہے اور میڈم اردو لکھ پڑھ نہیں سکتیں لیکن محسنِ پاکستان اور مادرِ وطن ثانی سے عقیدت رکھنے والے قارئین تو اردو سے آشنا ہیں اُن پڑھنے والوں کے لئے میڈم کے بارے لکھنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں سو چند شکستہ حروف ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں۔ بلاشبہ ہم ان عظیم احسانات کا حق ادا نہیں کر سکتے جو محترمہ نے تمام دنیاوی آسائشوں کو چھوڑ کر وطن عزیز پاکستان کی سربلندی و وقار کی خاطر اپنے شریکِ حیات کے ساتھ انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا ، اُن کی صاحبزادیاں ڈاکٹر دِینا اور ڈاکٹر عائشہ بھی پاکستان کا فخر ہیں جن کی تعظیم ہر پاکستانی پر لازم ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی جدائی میں میڈم ہینی جس عذاب سے گزر رہی ہیں وہ بھی کلامِ فریدؔ میں عیاں ہے:
سب وِسرے علم علوم اَساں
کُل بھُل گئے رسم رسوم اَساں
پَیا عشق اساڈھی آن سنگت
گئی شَدمَد، زیر زَبر دی بھَت
دعا ہے اللہ پاک میڈم ہینی کو مزید صبرواستقامت عطا فرمائے اور ڈاکٹر خان مرحوم کو بلندیٔ درجات سے سرفراز فرمائے۔ آمین
کملی کر کے چھوڑ دِتا ہوی
میں بیٹھی خاک اُڈاواں!
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔