درسِ عمیق

تحریر : ارشاد ڈیروی، ڈیرہ غازی خان

ہیں آپ کے فضائل واللّٰہ ہر جگہ پہ

ذکرِحسینؑ بھی ہے قدرت کا ایک راز

                                                انسان کی عقل سے ماورا ہے ،کہ وہ مظہرِحُریت ، مُعّلمِ عزت و غیرت، منبعِ شرافت، سَحاب رحمت، منزلِ جہادِ مُقدس، لِسانِ نبوتؐ، خطیبِ عدیم النظیر، تُسلطِ علوم، پاسبانِ شریعت، مُحافطِ حرم، زینتِ اَرض و سماء، وارثِ خُلقِ عظیم، مولائے رحیم و کریم، حصارِ توحید، قوتِ جلّیِ،جوہرِ امامتِ علیؑ، سفینہ نجات، گُلستانِ فاطمہؑ کے پُھول کی فضیلت بیان کر سکے، کیوں کہ جہاں انسان کا عقلی شعور تمام ہو جاتا ہے، وہاں سے فضائلِ حسینؑ کی ابتداء ہوتی ہے، جیسے آپ کے کمالاتِ ظہور کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح آپ کی مظلومیت کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے، اسی  لیے تو مقبول ذکی مقبول نے اپنی تخلیق کردہ

کتاب کا نام (منتہائے فِکر) رکھا ہے۔

لکھیں ثناءحسینؑ کی شاعر، ادیب، سب

عظمت حسینؑ پاک تک پہنچے کہاں دماغ

۔۔۔

دِیا، زندگی کا بجھا تھا جو کربل

اُسی سے ہے روشن نجف اور مدینہ

ذکی کا قلم بھی ، جگر بھی ہے ،مضطر

لکھوں کیا کہ ہے جب جبیں پر پسینہ

                                                مقبول ذکی مقبول جہاں اردو، پنجابی ،سرائیکی ادب کے ایک بلند پایہ ادیب اور صاحبِ ظرف شاعر ہیں۔ وہاں ایک شریف اُلنفس انسان ،حلیم الطبع آدمی اور سلیم الفطرت کی شخصیت بھی رکھتے ہیں۔ اِن کا دل مودتِ حسینؑ کے ساتھ ساتھ غم و سوز کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ ہر وقت، ہر

لحظہ، ہر گھڑی شعراء کے ہجوم اور ادباء کی بھیڑ میں رہتے ہیں۔

zaki and maqbool

                                                مقبول ذکی مقبولؔ وہ سعادت مند شاعر ہیں، جن کے حصے میں حمد، نعت ، منقبت، قصیدہ، نظم،  مسدس ، مثنوی، نوحہ، بند، مرثیہ، قِطعہ غرض یہ کہ شاعری کی کوئی بھی ایسی صنفِ نہیں ہے، جس میں طبع آزمائی نہ کی ہو، تخیل کی پرواز، قافیہ کی بندش، الفاظ کی نگرانی، اشعار میں جدت اور کلام میں شیرینی پیدا کرنا ،ان کا خاصا ہے زمین چاہے کتنی ہی پتھریلی کیوں نہ ہو مگر اِن کے لیے ہموار ہو جاتی ہے اور یہ غیر منقوطہ کلام لکھنے میں بھی مہارت

رکھتے ہیں۔

اَول  کا  ہی  وعدہ  ہو  گا

صحرا  آ کے  کر ہی  ڈالا

سر کٹوا کر کہہ گئے مولا

واحد   اللّٰہ     اللّٰہ    اللّٰہ

                                                کون اندازہ کر سکتا ہے اُس المناک منظر کا، اور کون قلمبند کر سکتا ہے اس درد ناک نظارےکو  وہ کس قدر شدید آزمائش کی گھڑی تھی، کہ جب راہِ خدا میں صبر و رضا کے خالق نے گلشنِ زہراؑ کا ننھا سا پُھول اسطرح پیش کیا کہ جس طرح ایک قاریِ قرآن اپنے دونوں ہاتھوں میں قرآن لیکر مصروفِ تلاوت ہوتا ہے۔ کائنات لرز اُٹھی، علی اصغرؑ کی شہادت پر آسمان کی چیخیں نکل گئیں،زمین کانپ گئی، فرشتوں کے سینے چر گئے، حوروں کے کلیجے پھٹ گئے، مصعومیت کی شہ رگ کٹ گئی تو انسانیت لرزنے لگی اور قاریِ قرآن نے زخمی قرآن کو ہاتھوں پر اٹھایا اور بارگاہِ ایزدی میں عرض کی اَئے بارِ الہٰا میری یہ معصوم سی قربانی قبول فرما خدا وندا تیرا احسان ہے کہ تو نے اسے بھی شہادت کے جام سے سر فراز فرمایا۔الہی یہ ننھا شھید تیری ہی امانت

تھی سو میں نے تیرے دربار میں پیش کردی۔

کیا اسلام کو زندہ لہو اصغرؑ کا دے کر یوں

خدا کو  ناز ہے ان  پر کروں گا میں سلام ان کو

                                                عاشور کے دن جب جنگ کا بازار گرم تھا۔ ہر طرف دشمنیِ اسلام کے شعلے بھڑک رہے تھے جو نہی نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو قتیلِ نینوا نے اپنے اصحابؑ کے ساتھ نماز با جماعت ادا فرمائی، اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرزندِ رسولﷺ اور آپ اصحابِؐ با وفا کس قدر مطمئن اور پر سکون تھے دورانِ جنگ آپؐ کا با جماعت نماز ادا کرانا نوعِ انساں کے لیے وہ درسِ عمیق ہے کہ جسے دیکھ کر انسان حق اور حقانیت کو سینے میں سمو سکتا ہے اور باطل سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ سکتا ہے، تاریخِ اسلام میں ایسے مخلص ساتھی جیسے غریب الوطن کو ملے کسی اور کو نہ  مل سکے اپنے اصحابؐ پر بجا طور پر شھیدِ اعظم نے اظہار افتخار کیا ہے۔

آپ کے اصحابؐ پر راضی ہوا ہے پاک ربّ

یاد ہے سب کو شجاعت دین پر آئے نہ آ نچ 

                                                ہم جب بھی تاریخِ بشریت کا مطالعہ کرتے ہیں تو عبادتِ خداوندی کا ایسا روح پرور نظارہ اور کہیں نظر نہیں آ تا بوقتِ نمازِ عصِر نیزوں اور تیروں کی بارش، ٹوٹی ہوئی تلواروں پہ ظالم وقت کے زیرِ خنجر مظلومِ کربلا کا خالقِ کائنات

کو سجدہ کرنا۔”منتہائے فکر” نہیں تو اور کیا ہے؟

زیرِ خنجر کربلا میں دیکھ کر سجدہ ترا

موت بھی کہتی رہی اَے بے وطن تجھ کو سلام

۔۔۔

آپ سا کوئی بہادر نہ کوئی دارین میں

دشمنوں کی بھیڑ میں پڑھنے لگے تنہا نماز

irshad dervi

ارشاد ڈیروی

ڈیرہ غازی خان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

11فروری ...تاریخ کے آئینے میں

جمعہ فروری 11 , 2022
11فروری ...تاریخ کے آئینے میں
11فروری …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں