نخلِ وفا کو پھولنے پھلنے بھی دیجیے
دل میرا جل اُٹھا ہے تو جلنے بھی دیجیے
پھر چار سُو فضا میں ہے تاریکیوں کاراج
دستورِ کائنات بدلنے بھی دیجیے
لینے کو گلستاں میں ہے اک صبحِ نو جنم
اس کربناک رات کو ڈھلنے بھی دیجیے
طے کی ہیں کتنی منزلیں میدانِ حشر تک
ربِ کریم!مجھ کو سنبھلنے بھی دیجیے
گزری اُمیدِ وصل میں بسملؔ تمام عمر
دل سے خیالِ دوست نکلنے بھی دیجیے
سردار سلطان محمود بسملؔ
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔