انٹرویو بسلسلہ ادبی شخصیات، شیخوپورہ
ڈاکٹرحکیم عبد الرحمٰن تائب وٹو صاحب، شیخوپورہ
انٹرویو کنندہ: مقبول ذکی مقبول، بھکر
سوال : آپ کا نام اور بچپن کے بارے میں معلومات دیں۔۔۔۔۔؟
جواب : عبدالرحمن، ولدیت موسیٰ خان وٹو، ادبی نام تائب وٹو، بچپن۔ 14 سال تک اندھیرے گھر کا اجالا چراغ کے مصداق ماں باپ کا اکلوتا رہا۔ اس لئے والدین کی خصوصی توجہ کا محور رہا۔ گھر کے اسلامی ماحول میں پروان چڑھا۔ کم سنی ہی میں کلام پاک پڑھ لینے کے بعد اسکول میں داخلہ لیا۔ 1940ء کے اجلاس مسلم لیگ لاہور میں شمولیت کے لئے مقامی مسلم لیگ قیادت کی روانگی کا منظر آنکھوں سے دیکھا اور صدر مسلم لیگ فیروز وٹواں ملک احمد خاں وٹو سے التجا کی کہ اپنی ہمراہی کا اعزاز بخشیں۔ انہوں نے چھوٹی عمر کی بنا پر ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا۔ میں ان کی سواری کو حد ِنظر تک حسرت سے دیکھتا رہا اور وہ حسرت آج تک باقی ہے۔
دوسرے جب میں آٹھویں (کلاس ہشتم میں)زیر تعلیم تھا تو اس وقت تحریک پاکستان عروج پر تھی۔ ہم مسلم طلباء دیواروں پر چاک سے لکھتے تھے کہ” لے کے رہیں گے پاکستان”۔ پاکستان زندہ باد غیر مسلم طلباء اس کو مٹا کر لکھتے تھے۔ "جو مانگے گا پاکستان اس کو ملے گا قبرستان” پاکستان مردہ باد۔ اس سے ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی اور دیگر ہمیں ایک دوسرے سے جداکر دیتے ۔ اس وقت پاکستان کے حق میں نعرہ بازی میں بڑا لطف آتا۔ اس کے علاوہ
شاعر فضل ہاپوڑی موضع ہاپوڑ میرٹھ اتر پردیش انڈیا کی یہ نظم "مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ "سارے ہندوستان میں مسلمانوں کے دل کی آواز تھی ہم طلباء اس نظم کو گلی کوچوں اور بازاروں میں بڑے جذبہ اور عقیدت سے پڑھتے اور گا تے تھے اور ہماری نظم جو زبان زدِعام تھی وہ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ "جس کے خالق شاعر اصغر سودائی آف سیالکوٹ ہیں۔ جو 17 دسمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 18 مئی 2008ء کو فوت ہوئے۔ نظم کا پہلا بند
شب ظلمت میں گزری ہے
اٹھ اب وقت بیداری ہے
جنگ شجاعت جاری ہے
آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔؟
تیرے 14 ۔ اگست 1947ء اعلان آزادی پر اپنے مکان کی چھت پر دوسرے لوگوں کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا لہرایا سینکڑوں جھنڈوں کا منظر دیکھ کر جو خوشی ہوئی وہ ساری زندگی نہیں بھولے گی۔ اعلان آزادی کے بعد ملک میں فسادات قتل و غارت کے لرزہ خیز واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور کانوں سے سنے۔ مہاجرین کی آمد پر ان کے کٹے پھٹے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضا دیکھے جن کو دہرانے پر اب بھی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سوال : آپ کی تعلیم کیا ہے۔۔۔۔۔؟
جواب : ادیب فاضل ہے جو اردو بی. اے ہے کیونکہ اس وقت انگریزی اختیاری مضمون تھا۔ طبیب حاذق اور ڈی۔ ایچ۔ ایم ایس تین تین سالہ ڈپلومہ ہولڈر اور پاکستان طب کونسل سے رجسٹر ہومیپویتھک ڈاکٹر اور رجسئرڈ حکیم ہوں اور عرصہ پچاس سال سے بطور ڈاکٹر و حکیم پریکٹس جاری و ساری ہے۔ اب تک ہزاروں مریضوں کا علاج کر چکا ہوں۔
سوال : آپ کا ادبی سرمایہ۔۔۔۔۔؟
جواب : میں 20 کتابوں کا مصنف ہوں۔ جن میں سے چند کتب اسلام آباد گورنمنٹ لائبریری میں رجسٹرد ہیں۔ شاعری میں آئینہ رضلاق۔ سخن ادب۔ طرف کلام رباعیوں پر مستعمل ہیں۔ اور ہسٹری پر کتاب تاریخ فیروز وٹواں ہے۔ باقی طب اور ڈاکٹری سے متعلق ہیں۔
سوال : آپ نے حکمت پر جو کتابیں لکھی ہیں۔ یہ ضرورت کیسے محسوس کی۔۔۔۔۔؟
جواب : جو کتابیں طب پر لکھیں ہیں۔ وہ صدقہِ جاریہ کے طور پر علام الناس میں مفت تقسیم کیں ہیں۔
سوال : آپ زندگی کی 90 بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ کیا ادب کا حق ادا ہو گیا۔۔۔۔۔؟
جواب : میں زندگی کے 90 برس گزار چکا ہوں۔ حتی المقدور ادب کی خدمت کی ہے۔ لیکن ادب کا حق نہین ادا کرسکا جس کی آرزو ہمیشہ اور باقی رہے گی۔
سوال : کیا آپ کی کوئی تحریر یا کلام نصاب میں شامل ہوا ہے۔۔۔۔۔؟
جواب : میری تحریر اور کلام پر کئی ادبی تنظیموں کی طرف سے ایوارڈ ملے اور تاج پوشیاں ہوئی ہیں۔ مگر کسی نصاب میں شامل نہیں ہیں۔
سوال : آپ تنظیم عہد وطن کے مشیر ہیں۔ اس کے بارے کچھ کہنا پسند کریں گے۔۔۔۔۔؟
جواب : تنظیم عہد وطن ایک محبان وطن اراکین کی جماعت ہے۔ جن میں وطن سے پیار اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہےاور خدمت خلق میں رواں دواں ہے۔ ان کے جذبہ حب الوطنی کا میں احترام کرتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ خدا ان نوجوانوں کو مزید خدمت انسانیت کی توفیق بخشے آمین
سوال :کیا تخلیق ہونے والے ادب سے بطور شاعر و ادیب مطمئن ہیں۔۔۔۔۔؟
جواب : میں موجود تخلیقی ادب سے خاصا متاثر اور مطمئن ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ اس میں مزید نکھار پیدا کرے اور یہ خوب بڑھے پھولے آمین
سوال : آپ حکمت کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ اب آپ ضعیف ہیں اور آپ کی حکمت جوان ہے۔ آپ کو کیسا لگا تا ہے۔۔۔۔۔؟
سوال : میں اتنی لمبی اور مسلسل طبی خدمات پر مطمئن اور خوش ہوں۔ بیمار اور معذور اشخاص کی خدمت کر کے بڑی خوشی اور مسرت محسوس کرتا ہوں۔ اس فن سے مجھے خصوصی لگاؤ اور لگن ہے۔ نیز میں آج کل لنگڑے۔ لولے۔ بہرے۔ اندھے۔ یتیم بچے اور بیوہ خواتین کا مفت اور فری علاج معالجہ کر رہا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ میاں آخری دم تک یہ کام کرنے کی سعادت نصیب کرے آمین
سوال : آپ قارئین کے لیے ایک غزل عطا کریں۔۔۔۔۔؟
جواب : جی ضرور
غزل
یارو میرے محبوب کے سب حالات لکھو
ہوچاہت جس سے اس کی ہر بات لکھو
رخ مثال لالہ سنبل و ریحان جیسے گیسو
عالم شباب کے طوفانی جذبات لکھو
لبوں کا تبسّم باتوں کی انوکھی چٹک
شگفتہ خوش جمال کے سارے کمالات لکھو
کبھی دل سے جڑے کبھی چشموں میں بسے
من عن پیاری پیاری حرکات لکھو
وہ میرا نصیب بھی وہ میرا حبیب بھی
اس مروت کوش کی ساری صفات لکھو
میری حسرتوں کو نہ لاؤ حساب و شمار میں
ان کی دریا دلی سخاوتی روایات لکھو
آتش فرقت کہیں نہ جلا ڈالے تائب
ان کے حضور میری قدم بوسی کے اوقات لکھو
سوال : جدید ادب کے حوالے سے آپ کی رائے۔۔۔۔۔؟
جواب : ادب کی جدت میں جو کچھ خدمات جاری و ساری ہیں۔ ان سے متفق ہوں۔ لیکن ان میں مزید سچائی ایمانداری اور مسلسل لگن و کاوش کی ضرورت ہے۔ تاکہ جدید ادب میں بھی مزید نکھار پیدا ہو جائے۔ میری دعا ہے کہ ادب اور زیادہ جدت کی منازل طے کرے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ آمین
مقبول ذکی مقبول
بھکر، پنجاب، پاکستان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔