اٹک کی سر زمین بہت زرخیز ہے اس زمین نے جہاں بہت بڑے شاعر اور ادیب جنم دیےوہاں فنکار ، موسیقار ،مصور، خطاط اور نعت خواں بھی روشناس کرائے جن میں ایک بلبلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محمد عرفان ہےمحمد عرفان 1978 میں تحصیل فتح جنگ سے ملحقہ گاوں کھرالہ کلاں میں حاجی محمد داود کے گھر میں پیدا ہوئے اور گونمنٹ ہائی سکول فتح جنگ سے میٹرک کی بچپن ہی سے انہیں موسیقی سے لگاو تھا اور اس لگاو کو پایہءتکمیل تک پہنچانے کے لیے انہوں نے استاد غلام رضا خان قریشی مرحوم کی شاگردی اختیار کی موسیقی سیکھنے کے بعد ان کا عشق بدلا دل طہارت سے مہمیز ہوا اور انہیں اس ذات سے مودت ہوئی کہ جس نے انسان کو جہالت و اوھام کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر معرفت و بصیرت اور ایمان و ایقان کی روشنی سے ہمکنار کیا ۔ اور وہ کون تھے وہ شفیعِ اعظم وہ نبیِ مکرم وہ رسولِ معظم وہ پیغمبرِ حاکم وہ رہبرِ کامل وہ بدر و منیر وہ بشیر و نذیر وہ سراج منیر وہ سیدِ ابرار وہ احمد مختار وہ مدنی تاجدار وہ حبیبِ غفار وہ محبوبِ ستار وہ خاصہ کردگار وہ شافع یومِ قرار وہ صدرِ انجمن لیل و نہار وہ آفتابِ نو بہار وہ سرورِ عالم وہ مونسِ آدم وہ قبلہ ءعالم وہ کعبہ اعظم وہ جانِ مجسم وہ نورِ مجسم وہ فخرِ دو عالم وہ مرسلِ خاتم وہ خیرِ مجسم وہ صدرِ مکرم وہ نورِ مقدم وہ نیرِ اعظم وہ مرکزِ عالم وہ وارثِ زمزم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی طاہر اہل بیت عظام ہیں۔ اس عشق کو جلا بخشنے کے لیے انہوں نے فتح جنگ کے ادبی مجلہ "دھنک رنگ” کے مدیرِ اعلٰی حاجی محمد داود سے نعت خوانی سیکھنی شروع کر دی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ٹھیکیداری کا پیشہ اختیار کیا جہاں تک محمد عرفان کی نعت خوانی کا تعلق ہے تو میں نے جتنی نعتیں سوشل میڈیا پر ان کی سنی ہیں ان میں سوز و گداز کی فراوانی ہے جب وہ ترنم سے نعت پڑھتے تھے تو سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی ۔ عاشقان رسولؐ کی آنکھوں میں آنسو ٹپک پڑھتے تھے اور سامعین کے دل ذکرِ مصطفیؐ سے منور و معنبر ہو جاتے تھے اُن کا لہجہ مثلِ لخلخہ ہے جس کی بے مثل خوشبو دماغ کی نسوں میں تقویت کا باعث ہوتی ہےفتح جنگ کے ادبی حلقوں میں انہیں دعوت دی جاتی تو تلاوت کے بعد وہ اکثر نعت پڑھتے تھے تو اک سماں بندھ جاتا تھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ کا ورد زبانوں کو معطر کرتا ہوا دلوں کی طہارت کا باعث بنتا تھا ان کی شخصیت جاذب نظر تھی لوگ نعت کے حوالے سے انہیں جانتے تھے کیونکہ یہ قبیلہ ء حسانؓی ہے جو تادم کائنات میں رہے گا اور جس کی آواز کائنات کی وسعتوں میں گونجتی رہے گی۔ اور نعت خوان کی کتنی باکمال پہچان ہے کہ لحد میں ،حشر میں اور جنت میں نعت خوانِ مصطفٰی پکارا جائے گا اور آقاؐ پاک کے علم کے سائے میں ہو گا جس دن لوگ پیاس اور گرمی کی شدت میں "نفسی نفسی” کہتے ہوں گے اور ہمارے آقاؐ "امتی امتی” کہتے ہوں گے۔
محمد عرفان نعتیہ پارٹی "بزمِ حسانؓ” میں نئے آنے والے نعت خوان حضرات کا استاد تھا جس نے کئی نوجوانوں کو نعت خوانی کے نورانی زیور سے آراستہ کیا۔ وہ فروغ نعت کے لیے تحصیل فتح جنگ کی مختلف پارٹیوں کو نعت اور اس کے رموز سکھاتا تھا اور اُس نے کئی نو آموز ناعت اپنی مدبرانہ کاوش سے استاد بنا دیے تھے ۔ وہ اپنی نعتیہ پارٹی کو رات کے وقت ریہرسل کرا کے بقیہ رات میں دوسری پارٹیوں میں نعت خوانی کے رموز سکھانے کے لیے جاتا تھا اس لیے اُس کو سونے کا بہت کم وقت ملتا تھا ۔فروغ نعت اٹک کے حوالے سے جب بھی تاریخ لکھی جائے گی محمد عرفان کا نام اس میں ضرور شامل کیا جائے گا اور اس کے بغیر تاریخ نامکمل تصور کی جائے گی۔ وہ سادہ لباس پہنتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آنحضورؐ کوسادگی پسند ہے اُسے کسی کھیل سے کوٸی دلچسپی نہیں تھی صوفیاء کرام کے کلام سننا اور پڑھنا پسند کرتا تھا کربلا معلٰی کی زیارات پر ابھی تک نہیں جا سکا تھا۔ آلام زمانہ میں گرفتار تھا گھر کے کچھ معاملات میں سخت پریشان تھا۔ انتہاٸی دلیر آدمی تھا دل کی سخت تکلیف کے باوجود اس نے کسی پر اپنے دکھ کا اظہار نہیں کیا تھا وہ ہر محفل کی جان تھا آخری وقت تک بیماری سے خاموشی کیساتھ لڑتا رہا صاف نیت انسان تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نیتوں کا دارومدار عملوں پر پر ہے اس لیے ہمیشہ اچھی سوچ رکھتا تھا اگر کسی بات پر غصہ آ جاتا تو جلد ہی معاف کر دیتا تھا وہ ہر کسی کے دکھ سکھ میں شامل ہوتا تھا اس میں کئی خوبیاں تھی جو اس کی شخصیت کو چار چاند لگائے ہوئے تھیں۔
اس کے والدین فوت ہو چکے تھے اس کا اوڑھنا بچھونا ہی نعت تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آنحضورؐ ہی ہمارے وارث ہیں اور وہ ہی ایسی ذات ہیں جو خیرالورٰی ہیں ، جو محب الورٰی ہیں ، جو آخرِ زماں ہیں ، جو جمیل القسیم ہیں، جو شفیع الامم ہیں ، جو منبر جود الکرم ہیں، جو شہر یار حرم ہیں ، جو سحابِ کرم ہیں ، جو مہر کرم ہیں، جو گنج نعم ہیں ، جو شاہ امم ہیں ، جو سیدالطیبین ہیں ، جو خطیب النبین ہیں ، جو امام المتقین ہیں ، جو امام العالمین ہیں، جو اول المسلمین ہیں ، جو محبوب رب العالمین ہیں ، جو سید المرسلین ہیں جو خاتم النبیبن ہیں ، جو نور مبین ہیں ، جو طہ و یسین ہیں ، جو رحمت اللعالمین ہیں ، جو مظہر اولین ہیں ، جو حجت آخرین ہیں ، جو آبروے زمین ہیں، جو اکرم الا کرمین ہیں ، جو مرادالمشتاقین ہیں ، جو شمس العارفین ہیں ، جو محب الفقراء و الغربا ہیں ، جو مورث کمالات آخرین ہیں ، جو صادق و امین ہیں ، جو مفسر قرآن مبین ہیں، جو روشن جبین ہیں ، جوسلطانِ دین ہیں ، جس سیدالثقلین ہیں ، جو نبی الحرمین ہیں جو وسیلہ فی الدارین ہیں ، جو صاحب قاب قوسین ہیں ، جو سید الکونین ہیں ، جو سرورِ کونینِ ربِ رحمٰن ییں ، جو حبیب المشرقین و رب المغربین ہیں ، جو محبوبِ رب دو جہاں ہیں ، جو قاسم علم و عرفاں ہیں ، جو راحتِ قلوبِ عاشقاں ہیں ، جو سرور کشوراں ہیں ، جو راحت عاصیاں ہیں ، جو کون و مکان ہیں ، جو شفقت پیکراں ہیں ، جو چارہ گر چارہ گراں ہیں ، جو رہبر انس و جاں ہیں ، جو تاب جاں و ہادی ء گمراہاں ہیں ،جو شافع عاصیاں ہیں ، جو حامی ء بے کساں ہیں ، جو راحت قلب جسم و جاں ہیں ، جو شاہ دوراں ہیں ، جو ہادی ء جہاں ہیں ، جو قرار بے قراراں ییں ، جو غم گسارِ دل فگاراں ہیں ، جو انیس بے کساں ہیں ، جو چارہ گرِ آزدرگاں ہیں، جو سکونِ دردمنداں ہیں ، جو راحت رفتگاں ہیں ، جو پناہ بے پناہاں ہیں ، جو نگاہ بے نگاہاں ہیں، جو غم سازِ غریباں ہیں ، جو خیرالناس ہیں تو کیوں نہ ایسے کریم آقاؐ سے لو لگائی جائے جو دنیا و آخرت کے تمام خزانوں سے ارفع ہیں اس لیے اُن کی خوشی میں خوشی اور اُن کے غم میں غم منانا چاہیے اسی لیے وہ کربلا والوں کا غم منانے والا جوان تھا وہ اہل بیت رسولؐ کا غم دل میں پوشیدہ بھی رکھتا تھا اور اس کو دل کے نہاں خانوں سے عیاں بھی کرتا تھا۔ وہ مختلف ٹی وی چینلز پر نعت پڑھنے جاتا تھا اے ٹی وی چینل پر اس کی نعت آج کل بھی چل رہی ہے۔ اس کو دل کا عارضہ لاحق تھا اور اُس کے دل کا بائی پاس ہو چکا تھا اس لیے جب اس بار اس کو دل کی تکلیف ہوئی تو اس کو راولپنڈی آر آئی سی میں علاج کے لیے لے کر گئے جہاں ڈاکٹر نے اس کو بے ہوشی کا انجکشن لگا دیا اور یہ بے ہوشی کے عالم میں ہی 15 جنوری 2021 بروز ہفتہ اللہ کو پیارا ہو گیا مولانا عرفان القادری نے نماز جنازہ کی امامت کرائی جس میں تحصیل فتح جنگ کے تقریبا تمام نعت خواں شریک ہوئے عاشقانِ مصطفٰی کا ایک بہت بڑا ہجوم شریکِ جنازہ تھا جس کے لبوں پر دعائیں تھیں۔ اللہ پاک اس کی قبر کو روشن فرمائے اور اس کی روح کو جنت الفردوس میں بلند مدارج پر فائز فرمائے ۔آمین
سیّد حبدار قائم
آف غریبوال، اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔