سعادت حسن آس بحرِ نعت میں رہنے والے عظیم شاعر ہیں جن کی فکری عفت ان کو اوجِ کلام کے گوہر عطا کرتی رہتی ہے اس دور میں ایسے لوگ نایاب ہیں جن کا سخن کے ساتھ ساتھ کردار بھی عظیم ہو اور ان کی تنہائی یاد الٰہی سے منور ہو یادِ الٰہی سے منور دل جب نعت رقم کرنے کے لیے بڑھتا ہے تو اسلوبیاتی صباحت، تکنیکی جہت اور فنی صلاحیت خود بخود اُن کے قدم چومتی ہیں اور وہ نعت لکھتے جاتے ہیں میرے شہر کے بڑے بڑے نام اس فکری نظافت سے محروم ہیں اور ان کے قدم لڑ کھڑا گئے ہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مودت جب عروج پر پہنچتی ہے تو آپؐ کی اہل بیتؑ کی مودت خود بخود الہام میں گُھل کر مقامِ عرفان کے زینے عبور کرتی ہے سعادت حسن آس جہاں نعت گوئی میں ندرت کی مہکتے پھول اپنی زنبیل میں ڈالے ہوئے ہیں وہاں ہی وہ سلام اور منقبت کے گلاب بھی رکھتے ہیں اور یہ گلاب جب خوشبو بکھیرتے ہیں تو وہ آہِ رسا کی صورت اختیار کر جاتے ہیں یہی آہِ رسا ان کو خیال ہی خیال میں کربلا و نجف سے مرجان و دُرِ نجف عطا کرتی ہے یہی گوہر لفظ لفظ بن کر کتابی صورت اختیار کرتے ہیں اور ہمیں "آہِ رسا” پڑھنے کو ملتی ہے "آہِ رسا” ہم سب کے دلوں کی آواز ہے جو قارئین کی سماعتوں میں رس گھولے گی۔ اس نئی تصنیف پر سعادت حسن آس کو بہت مبارک ہو اور یہ عظیم کاوش اللہ تعالٰی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
سید حبدار قائم
سیکریٹری نشر و اشاعت
کاروان قلم اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔