عبد العزیز خاں عبرتؔ بہرائچی

صاحب نامورانِ بہرائچ :عبد العزیز خاں عبرتؔ بہرائچی

(بہرائچ ایک تاریخی شہر حصہ دوم بہرائچ اردوادب میں  سے نقل)

جنید احمد نور، بہرائچ

            عبد العزیز خاں عبرتؔ بہرائچی کی پیدائش یکم جنوری۱۹۳۳ءکو شہر بہرائچ میں ہوئی ۔( لگن ،عبرت ؔ بہرائچی ۱۹۸۲ء، ص ۵)جب کہ آپ خود اپنی تاریخ ولادت یکم جنوری ۱۹۲۷ءبتاتے تھے۔کچھ کتابوں میں آپ نے سن ۱۹۳۰ءبھی لکھا ہے۔

            آپ کے والدکا نام عبد الشکور خاں تھے۔آپ نے اردو مڈل،ہندی مڈل،ہائی اسکول یو۔پی بورڈ کے امتحانات گورنمنٹ انٹر کالج بہرائچ سے پاس کیا،بعد میں ادیب ماہر و ادیب کامل جامعہ علی گڑھ سے کیا۔فارسی کی کچھ کتابیں باباجمالؔ سے پڑھی اور ابتدائی عربی مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ سے حاصل کی۔ محکمہ تعمیر اتر پردیش میں ملازم رہے۔ سبکدوش ہونے کے بعد ہومیو پتھ ڈاکٹری علاج و معالجہ میں مصروف تھے۔تقریباً دو سال قبل فالج کا اٹیک ہوا تھا۔

ڈاکٹر محمد نعیم اللہ خیالیؔ صاحب لکھتے ہیں :۔

            عبرت ؔصاحب کےپرداداسرفرازخاںیوسف زئی باشندۂ اجمیرتھے۔جوغالباً ہنگامۂ۱۸۵۷ء میں نقل مکانی کر کے بہرائچ میں آ کر بس گئے تھے۔عبرت ؔ صاحب نانہالی اور ددھیالی طورپر خاندانی شاعر کہے جانے کے مستحق ہیں،کیونکہ ضامن علی خاں صاحب انیقؔ بہرائچی کی نواسی عبرتؔ صاحب کی دادی تھیں۔علاوہ ازیں عبرتؔصاحب کے والد ماجد کے حقیقی خالہ زاد بھائی حضرت وصفیؔ بہرائچی تھے جو انیق ؔ صاحب کے پرپوتے تھے۔

Aziz Ebrat

            شاعری کا ذوق آپ کو وراثت میں ملا تھا اس لئے وہ ابتدائے عمر ہی سے شعر کہنے اور پڑھنے لگے تھے۔۱۹۵۰ءسے مشاعروں میں شرکت شروع کی۔ مشق سخن کی ابتدائی تحریک مولانا شفیع حیدر صاحب ضیاء ؔسابق مدرس فارسی مہاراج سنگھ انٹر کالج کی صحبت و قربت میں ہوئی۔پھر کچھ دنوں نشور ؔواحدی سے بذریعہ مراسلت مشورہ لیا۔ “(لگن (عبرت ؔ بہرائچی ۱۹۸۲ء، ص ۵)

عبرتؔ بہرائچی نظم اور غزل دونوں میں حاکمانہ قدرت رکھتے تھے، آپ کی غزلوں کی خاص پہچان الفاظ و محاورات کا بخوبی استعما ل ہے جو ان کے تخلیقی ذہن کی غمازی کرتا ہے۔ عبرتؔصاحب نثر کے میدان میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ آپ نے سیکڑوں مضامین لکھے ہیں۔ اب تک ساٹھ سے زیادہ چھوٹی اور بڑی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں چار درجن کتابیں دینی اور ادبی نثری کتابیں ہیں اور دو درجن سے زائد آپ کے شعری مجموعے ہیں۔

            عبرتؔ نے صرف غزل ہی کواپنے اظہار کا وسیلہ نہیں بنایابلکہ حمد و نعت و منقبت، نظم، رباعی،قطعات بھی کہے۔بچوں پر بھی بہت عمدہ نظمیں کہی ،حبّ الوطنی پر آپ کی معیاری نظمیں ہندوستان کے کئی معیاری رسائل و جرائد جن میں نیا دور لکھنؤ،آج کل دہلی،قومی آواز لکھنؤ، صبح امید بمبئی،نیشنل فرنٹ لدھیانہ،وغیرہ شامل ہیں شایع ہوچکی ہیں، آپ کی نظم ’’باپو‘‘ریڈیو تاشقند سے نشر ہو چکی ہے جو بین الاقوامی سطح پر پسند کی گئی۔ آل انڈیا ریڈیوپر بھی کئی نظمیں پڑھی جا چکی ہیں۔

ڈ اکٹر عبرت ؔبہرائچی کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے لیے اترپردیس اردو اکادمی نے انعامات سے نوازا،دوسری دیگر تنظیموں نے بھی انعامات اور ایواڈ سے سرفراز کیا۔

محسن ؔزیدی لکھتے ہیں:۔

            عبرتؔ بہرائچی بنیادی طور پر جمالیاتی اور رومانی شاعر ہیں۔لیکن وہ عصری تقاضوں سے بے خبر بھی نہیں۔انہیں اپنے عہد کی کڑوی حقیقتوں کا ادراک ہے۔ان کے لہجے میں ایک نیاپن ہے،اشعار میں معنویت اور رمزیت ہے۔ان کے اشعار جدید لباس سے آراستہ ہو نے کے ساتھ ساتھ نوک پلک سے سجے سجائے ہیں۔(  نشاط درد، عبرت ؔ بہرائچی ۱۹۸۸ء،ص ۹)

نعمت ؔبہرائچی لکھتے ہیں :۔

            جناب عبرت ؔ بہرائچی صاحب نہ صرف نمائندہ شاعروں میں ہیں بلکہ شعری وادبی خدمات کے ساتھ ساتھ قومی اور ملکی قلم کاریاں بھی بہت نمایا ں ہیں۔آپ کا کلام سن کر ہر وہ شحص بھی متاثر ہوتا ہے یہ جو یہ نہیں جانتا کہ شعری محاسن کس چیزکا نام ہے۔ ہر صنف سخن میں آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔سرکاری ملازمت کے کام و کاج میں مصروف ہونے کے باوجود آپ نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں جن مین شعری مجموعے متاع زیست،لگن،ہم ایک ہیں،تحقیق وجستجو، وجہ لوح وقلم ،آفتاب حُریت،باعث کن فکاں کے علاوہ مذہبی تصانیف بھی شامل ہے۔ ( تذکرۂ شعرائے ضلع بہرائچ ، ۱۹۹۴ء،ص ۸۰)

عبرتؔ صاحب کی وفات ۲۵؍ اپریل ۲۰۲۱ء مطابق ۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۴۲ھ کو عصر اور مغرب کے درمیان میں ہوئی اور تدفین رات میں گیارہ بجےمقامی قبرستان چھڑے شاہ تکیہ میں ہوئی تھی۔راقم نے بھی شرکت کی۔

شعری مجموعہ :۔لگن،متاع زیست، صدائے نو، درناسفینہ،صاحب اسرا، اخوت کاامین،محسن اول، کاروان فکر، مغز سخن، شارع اسلام، روحِ اسلام،رحمتوں والا، مقصود کن فکاں، رسالت مآبؐ، موجِ فکر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نثری تصانیف:۔ ہمارے معاصرین، نجوم رسالت، عظیم صحابیات، روزہ کیا ہے؟،آپ کیوں نہیں جانتے، خضر منزل،(دو حصوں میں)، کیا آپ جانتے ہیں، یہ جاننا بھی بیحد ضروری ہے، قرآن کریم کیا ہے، حیرت ہے آپ یہ نہیں جانتے، آئین شاعری، نفوش رفتگاں، نقوش رفتگاں، نامورانِ بہرائچ، کشت دیگراں، اردو کی بنیادی باتیں، حج وعمرے کی فضیلت، نقد و نظر، نظریات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نمونہ کلام

میت کو میری دوستو آہستہ لے چلو
میں موت سے لڑا ہوں ،بدن چور چور ہے

٭٭٭

نفرتیں آپے سے باہر ہوگیئں
جب سے پھیلا ہے نظریاتی بخار

٭٭٭

فصیل شہر پہ پہرا بہت کڑا تھا مگر
غنیم شہر کو تاراج کرکے لوٹ گیا

٭٭٭

جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے
میں اس لمبے سفر پہ جا رہا ہوں

٭٭٭

چاہے صحرا میں چاہے گھر رہنا
زندگی سے قریب تر رہنا
جس کے گھر جانا مہماں بن کر
اس کے گھر یار مختصر رہنا
چاہتے ہو اگر ملے شہرت
روز کی تازہ اک خبر رہنا
یہ منافی ہے آدمیت کے
بے خبر اور خود نگر رہنا
آنچ آنے نہ پائے عزت پر
تم گہر ہو سدا گہر رہنا
کارناموں سے اپنے اے ہمدم
تم امر ہو تو پھر امر رہنا
یہ گزارش ہے تم سے اے عبرتؔ
عمر بھر میرے ہم سفر رہنا

غزل

جب سے شانوں پہ تیرے زلف پریشاں دیکھ
اپنے سایہ سے بھی اپنے کو گریزاں دیکھا
تم نے ہر رنگ میں چھپنے کی بہت کوشش کی
ہم نے جس رنگ میں چاہا تمہیں عریاں دیکھا
یہ سکوں دوسرا اک نام ہے مر جانے کا
ہاں تڑپنے میں مگر زیست کا ساماں دیکھا
مٹ گئے راجہ و نواب تو کیا پرواہے
ملک کے سارے کسانو کو تو شاداں دیکھا
قہر ہے تیری خدائی میں خدا وند جہاں
ہم نے انسان کو انسان سے لرزاں دیکھا
گلشن ہند میں جب آگ لگی تھی عبرتؔ
ہم نے ایسے میں شاعر کو غزلخواں دیکھا

Juned

جنید احمد نور

بہرائچ، اتر پردیش


تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

1جنوری ...تاریخ کے آئینے میں

ہفتہ جنوری 1 , 2022
1جنوری …تاریخ کے آئینے میں
1جنوری …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں