نعت حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم سے گہری وابستگی اور محبت کے اظہار کا زریعہ بھی ہے اور بخشش کا وسیلہ بھی۔نعت مدحتِ سرکار صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم سے لفظی اظہار بھی ہے اور دِلی جذبات کی ترجمان بھی ہے۔ نعت کا شمار دیگر اصنافِ سُخن کی نسبت معتبر تصور کیا جاتا ہے ۔
نعت حضور علیہ الصلوة والسلام صلى اللّٰه عليه وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ،فضائل و مناقب،شمائل وخصائل،تعریف و توصیف ،محبت و مودت ،عقیدتو جذبات کو موثر انداز میں اظہار کرنے کا ذریعہ ہے یہی وجہ ہے کہ موضوعاتی اعتبار سے نعت کو دیگر اصناف کی بدولت زیادہ تقویت و پذیرائی مل رہی ہے۔
زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ حمد و نعت میں بھی شعریت و موزونیت کے اعتبار سے نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ زمانے کے بدلتے ہوئے رجحانات و میلانات کا اثر حمدیہ و نعتیہ کلام پر بھی نظر آتا ہے ۔ حمد و نعت کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ زمانے میں جدید طرز پر ہر صنفِ سخن اور ہیئت میں حمد و نعت کو صفحہ قرطاس کی زینت بنایا جا رہا ہے۔نئی، نئی زمینوں کے ساتھ نئے قافیے اور منفرد ردیفوں کے استعمال سے حمد و نعت کے ُحسن میں جو گراں قدر اضافہ ہوا ہے وہ باعثِ مسرت وانبساط ہے۔نیا طرزِ ادا ، نیا اسلوب ،تازہ کاری ،خوش سلیقگی اور شگفتگی کے باعث نعت ُدنیائے ادب میں مقبولیت کے بلند گراف کو ُچھو رہی ہے۔
بظاہر نعت کا موضوع سہل معلوم ہوتا ہے لیکن در حقیقت مجموعی اعتبار سے نعت گوئی کا فن بہت دقیق ہے ۔اس میں قلم کی ہلکی سی جنبش پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے بعض اوقات شاعر کی ہلکی سی کوتاہی بھی اس کے سلبِ ایمان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے نعت لکھتے ہوئے خاصی احتیاط برتنی پڑتی ہے ۔بہ حیثیت مسلمان عقیدے کی رو سے نعت عقیدتِ رسولؐ کا اظہار بھی ہے اور عشقِ مصطفٰی کی معراج تک پہنچنے کا ذریعہ بھی ہے ۔جب انسان کو سرکار صلى الله عليه وآلہ وسلم سے محبت ہوجائے تو وہ اس کے اعمال و افکار اور الفاظ سے جھلکتی ہے حبِ سرکارصلى الله عليه وآلہ وسلم سے یہی حد درجہ عقیدت مندی سے لبریز جذبات کبھی آنسو بن کر تو کبھی الفاظ بن کر بعد ازاں نعت کی صورت میں ادا ہونے لگتے ہیں۔
نعت گوئی کے لیے اللّٰہ عزوجل نے جن بیدار بختوں کو توفیق ارزاں بخشی اُن میں سید مسعود چشتی کا نام بھی شامل ہے۔
موصوف عہِد حاضر میں فیصل آباد کے نعت گو شعراء کی فہرست میں نمایاں تشخص اور شناخت رکھتے ہیں۔اُن کی نعتِ رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ُنہوں نے دوسری شعری اصناف سے اجتناب برتا اور اپنے شعری اظہار کے لیے نعت کی ہی صنف کو منتخب کیا۔
بقول شاعر
مری حیات کا حاصل ہے نعت کی ُخوشبو
عطا ہوئی ہے جو منزل ہے نعت کی ُخوشبو
اُنہوں نے فنِ نعت کی مروجہ رسمیات سے خود کو ُدور رکھا اور اپنے کلام کو جدید لفظیات سے مزین کیا ہے ۔ان کے ہاں عقیدت وجذبات کی ورافتگی،تخلیقی جواہر، وسعت مطالعہ ، لفظوں کا چناو، محبت کا گہرا احساس، حسیاتی نظام سے واقفیت، معاصر منظر نامے پر عمیق نظر ، ادب و حضوری کی ملی ُجلی کیفیات ملتی ہیں ۔
سکھائے نعت نگاری کا بھی ادب مجھ کو
ملےحضورؐ کے صدقے وہ جامعہ ُخوشبو
نعتِ رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم سے گہری وابستگی اور رسول صلى الله عليه و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے والہانہ محبت انہیں اپنے آباو اجداد سے ورثے میں ملی
ہے جس نے ان کے دِل کو روشنی سے منور کر دیا ہے ۔
کرے جو روشن و پُرنُور ِدل کو بھی ہر دم
مجھے نصیب رہے ایسی قُمٙقمہ ُخو شبُو
موصوف کا رسول صلى اللّٰه عليه و آلہ وسلم سے عشق کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے خیالات تک کو پاکیزہ رکھتے ہیں کہ کیا معلوم کب سرکار صلى اللّٰه عليه وآلہ وسلم پھر کرم فرمائیں اور نعت کے اشعار عطیہ ُخداوندی سے عطا ہونے لگیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نعت گوئی ان کی زندگی کا اولین مقصد ہے
نزولِ نعت میں بنتی ہے جو وسیلہ بھی
ملے خیال کو بھی ایسی ملا ئکہ ُخوشبو
انہوں نے نعت کو جس خوش اسلوبی اور سلیقے سے لکھا ہے وہ قابلِ تعریف ہے ۔
ورق ہوا ہے خوشبو خوشبو” اُن کا گیارہواں نعتیہ مجموعہ ہے
۔جس میں انہوں نے دو حمدِ باری تعالٰی بھی رقم کی ہیں ۔
حمدیہ کلام میں انہوں نے نئے اور ادق ترین قوافی استعمال کئے ہیں جو دیگر شعراء کے ہاں بہت کم ملتے ہیں ۔
کروں جو بند میں آنکھیں مدینہ سامنے ہو
ہو میری حامی و ناصر وہ باصرہ خوشبو
کرے جو طیب و طاہر خیالوں کو میرے
سدا نصیب ہو ایسی معظمہ خوشبو
مزید ملاحظہ فرمائیے
کرے جو مجھ سے مدینے کی باتیں ہر لمحہ
بنے رفیق مری وہ مکالمہ خوشبو
عطا جو کرتی ہے اسرارِ کائنات کا علم
دِر حضور سے آئے مکاشفہ ُخوشبو
اسی حمد کا مقطع ملاحظہ فرمائیے
کرے جو رہبری جادہ خیر پر ہر دم
سدا نصیب ہو مسعود محسنہ ُخوشبو
حمد میں خوبصورت پیراِئے سے قوافی کے استعمال سے مجموعے کی رونق کئی ُگنا بڑھ گئی ہے۔
شاعر کا یہ مجموعہ فنِ نعت کی ُدنیا میں ایک منفرد مقام کا حامل ہے ۔ان کا یہ کلام روایت اور جدت کا ایک حسین امتراج ہے ۔ جس میں پہلی بار حسیاتی موضوع کو قدرے تفصیل کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا گیا ہے ۔اس مجموعہ کے حرف حرف میں حبِ مصطفٰی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کی ُخوشبو رچی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔
اُنؐ کے تنِ نازک کا پسینہ
حد سے سوا ہےخوشبو خوشبو
اس کلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں صاحب کالم نےاہل بیت اطہارؑ کی محبت اور نسبت کو مِد نظر رکھتے ہوئے بہتر (72) نعتوں کو ایک ہی ردیف "خوشبو ” پر مرتب کیا ہے،جو بذاتِ خود ایک مشکل امر ہے۔
میرے آقا ہو عطا آلِ عبا کی خوشبو
دے میرے ِدل کو ضیاء آلِ عبا کی خوشبو
ان کے ہاں شعریت اور شعوریت کے تمام تقاضے بدرجہ اتم موجود ہیں۔اُن کا اسلوب اتنا سادہ ،دلنشین اور عشقِ مصطفّٰی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کی محبت اور چاشنی سے لبریز ہے کہ زبان و دل سے بے ساختہ داد و توصیف کے کلمات ادا ہونے لگتے ہیں ۔
اس کلام کی پہلی صفت تو یہ ہے کہ یہ نہایت قلیل مدت یعنی سترہ روز میں مکمل ہوا ہے اور اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ اس مجموعے کی اشاعت کے دوران میں ہی صاحب کلام کا ایک اور مجموعہ "لفظِ ُکن سے بھی پہلے” مکمل ہوا ہےنیز صاحبِ کلام کے اس مجموعے کا ہر شعر مکمل نعت ہے۔
پڑھتے ہی رہو صلےعلی آپ پر درود
مل جائے گی پھر کوثر و تسنیم کی ُخوشبو
نعت لکھنا،نعت پڑھنا، نعت ُسننا یہ سب رب العزت کی بخشش ہیں
اُمید ہے مسعود چشتی صاحب کا کلام خوشبو بن کر عاشقانِ رسول صلى اللّٰه عليه و آلہ وسلم اور محبانِ اہل بیت اطہارؑ کے ایمان کو نئی تازگی بخشے گا ۔ ُدُعا ہے رب العزت سے کہ ان کے قلم کو مزید رفعتوں سے نوازے اور رب العزت ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔آمین
شُمائلہ مُنیب شُمائل
فیصل آباد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔