تاریخ نے عظمت کا تاج صرف انہی شخصیتوں کے سر پر نہیں رکھا جو اپنی سرشت میں مثبت تھیں۔ اس کے صفحات نے انھیں بھی ان کا جائز مقام دیا جو ہر لحاظ سے منفی تھیں لیکن دنیا پر جن کے اثرات بہت گہرے پڑےتھے۔
جس شخص کا ذکریہاں کیا جا رہا ہے وہ انہی عظیم شخصیتوں میں ایک تھا جس کا نام تاریخ کے صفحات میں اگر سنہرے حروف میں نہیں تو خوں رنگ شخصیت کی حیثت سے جانا جاتا ھے اس کی پراسراریت کے رنگ کو مزید گہرا کرنےکےلیے یہ حقیقت بھی کافی ھے کہ اس نے نوے سال کی عمر پائی اور اپنی زندگی کے آخری پچاس سال میں وہ کبھی اس قلعے سے باھر نہیں نکلا جو اس نے تعمیر کرایا تھا۔
اور اسے باھر نکلنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ اس نے جو دنیا بنا رکھی تھی وہ ایک دنیا ھی نھیں ایک جنت بھی تھی ۔ مورخین کا کہنا ھے کہ آج اگر امریکا کے پورے سال کے بجٹ کو بھی خرچ کر دیا جاےً تو بھی ویسی جنت نہیں بنای جا سکتی جو اس نے اپنے قلعے میں بنا رکھی تھی حقیقتااس کا یہ قلعہ اپنے زمانے میں اس دنیا کے متوازی ایک اور دنیا تھی، اپنی ساتھی دنیا سے کہیں زیادہ خوبصورت۔
یہ دسویں صدی عیسوی کی بات ھے پہلے مصر اور پھر فارس کے مدرسوں میں تین بچے ایک ساتھ دیکھے جاتے تھے پھر تینوں کے درمیان ایک عہد ہوا کہ وہ بڑے ھو کے دنیا کی عظیم ترین شخصیتیں بنیں گے یہ ان بچوں کی بچگانہ سوچ نظر آتی ہے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہ تینوں بچے اپنے اپنے دایًرے میں عظمت کے ان بلند مقامات پر پہنچے جو ان کے عہد کے عین مطابق تھے ۔ان میں سے ایک بچے کا نام تھا طوسی جو بڑا ہو کر نظام المک طوسی کے نام سے تاریخ کے صفحات میں جگمگایااور ایک بڑی سلطنت کا وزیر اعظم بنا دوسرے بچے کا نام تھا عمر ، آج دنیا اسے علم حساب ،علم الافلاک اور شاعری کے لاثانی عالم عمر خیام کے نام سے جانتی ہے۔
یہ تیسرے کا احوال ہے جو یہاں لکھا جا رہا ھے اور یہ تیسرا بچہ بڑا ھو کر تاریخ عالم کی پراسرار ترین شخصیت کی حیثیت سے نمایاں ھوا ۔ وہ وزیر اور شاعر سے بڑا بننا چاہتا تھا ایک بادشاہ ،ایک بادشاہ گر ۔ مصر کی فاطمی مملکت ،بغداد کی خلافت عباسیہ اور مملکت فارسیہ پر اس کی لیاقت کے گہرے اثرات تھے۔
اس زمانے میں مملکت فاطمیہ انتہائی طاقتور حکومت تھی اس کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ فاطمی خلیفہ کو زہریلی دعوت میں بلا کر اس کا خاتمہ کر دیتا ،مگر خلیفہ کا ایک پوتا اس کا بہت چہیتا مرید تھا سو اس نے اس کے راستے کے سارے کانٹے ہٹا دیے اور اسی کو مملکت فاطمیہ کا تاجدار بنا دیا وہ ایک ایسا شاطر سیاستدان تھا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔ اس نے پہلی بار حشیشین کے نام سے ایک ایسی فوج بنائی جو جان لینے اور جان دینے میں اپنا جواب نہ رکھتی تھی انگریزی زبان کا لفظ انہی حشیشین سے مشتق ھے۔
یہ فدائی کہلاتے تھے جن کی ہیبت نے کسی زمانے میں ہلاکو خان جیسے تاتاری حکمران کو بھی لرزا کے رکھ دیا تھا اس نے اپنے لیے جو قلعہ عراق کی سرزمین مین بنوایا اس کا نام تھا "قلعہ الموت” یعنی "عقاب کا نشیمن” یہاں اس نے ایک جنت تعمیر کی تھی جو آج کے ڈزنی لینڈ سے بھی برتر تھی یہاں وہ سب کچھ تھا جس کا تصور جنت کے ساتھ وابستہ ہے حوریں ، اشجار ، جھیلیں ، دودھ اور شہد کی نہریں ، فوارے ،یاقوت اور زمرد کے تخت ،بھاپ کے بادل ، رنگ برنگ پرندے ،سونے چاندی کے محلات ،ساری دنیا کے پھلوں کے باغات اور عجیب و غریب جانور وغیرہ ۔ یورپ اور امریکا کی تصانیف میں اس کا ذکر بڑے احترام سے ملتا ہے ۔ وہ لوگ تو اسی کو دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں ،سی آئی اے ،موساد ،کے جی بی ، گسٹاپو ، را وغیرہ کا بانی مبانی قرار دیتے ہیں اس کے لوگ اسے خدا کا اوتار سمجھتے تھے اس کا جاری کردہ ہر حکم صرف دو دن میں بروئے کار لے آیا جاتا ذرا تصور کریں کیسا ہو گا اس قائم کردہ نظام اس شخص کی تفصیلی داستان کسی الف لیلہ سے کم نہیں تاریخ آج تک اس جیسی کوئی دوسری شخصیت سامنے نہیں لا سکی جو فتنہ پروری ، چالاکی ،ذہانت اور خطرناکیت میں اس کی ہم پلہ قرار دی جا سکے وہ 1024ء میں پیدا ہوا اور اس کی موت 1124ء میں ہوئی ۔
جانتے ہیں اس حیرت انگیز پر اسرار شخص کا نام کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حسن بن صباح
آغا جہانگیر بخاری
چیف ایگزیکٹو
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔