نمازِ شب کی رفعتوں، تابانیوں اور جلوہ سامانیوں کے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں
” نماز شب پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہے۔ فرشتوں سے دوستی کا سبب ہے۔ پیغمبروں کی سنت ہے ۔ معرفت کا نور، حقیقت پر یقین دلانے کا وسیلہ ، جسمانی صحت کی وجہ اور شیطان کی پریشانی کا موجب ہے۔ دشمنوں کے خلاف ایک اسلحہ ہے، دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا سبب ہے روزی میں برکت کا باعث ہے موت کے فرشتے اور نمازی کے درمیان دوستی اور سمجھوتہ کرانے والی چیز ہے نمازِ شب قبر میں ایک چراغ کا کام دیتی ہے ۔ اور وہاں نرم بستر بھی بن جاتی ہے ۔ منکر نکیر کے سوالوں کا جواب ہے ایک اچھا ہمدم ہے ۔ قبر میں قیامت تک کے لیے نمازی کی ایک ملاقات ہے ،جب قیامت ہوگی تو نماز شب سر پر سایہ دے گی ۔ بدن پر لباس اور تاریکی میں راہ دکھانے کے لیے نور کا کام کر دے گی۔ آگ اور نمازی کے درمیان حائل ہو جائے گی ۔ اس کے اور خدائے تعالی کے درمیان حجت، اعمال کی ترازو میں ایک وزنی چیز، پل صراط سے گزرنے کے لیے ایک اجازت نامہ اور جنت کی کنجی بن جائے گی۔
گویا نمازِ شب ہر مشکل کا حل ہے۔
نمازِ شب پڑھنے والے انسان کو مضطرب ہونے کی ضرورت نہیں کہ روز قیامت جہنم کی آگ اسے بھسم کر دے گی۔ یا عذابِ قبر کی وجہ سے اس کی دائیں والی پسلیاں بائیں اور بائیں وائی پسلیاں دائیں طرف دھنس جائیں گی۔ یا کہ قبر کا جب دروازہ کھلے گا تو اس میں ایک خطرناک اژدها آئے گا جس کے منہ سے آگ کے شعلے نکل کر انسان کو راکھ کر دیں گے یا یہ کہ موت کا فرشتہ روح نکالتے وقت عذاب الہی کا مزہ چکھائے گا ۔
نمازِ شب فرشتوں سے دوستی کا سبب بنتی ہے نمازی اور نارِ جہنم کے درمیان دیوار بن جاتی ہے ۔ اعمال کے ترازو میں سب سے وزنی چیز بن جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ ہر قسم کے عذاب سے بچاو کی مکمل ضمانت نماز شب ہے ۔ جیسا کہ مذکورہ بیان میں بلکہ حکم امام جعفر صادق علیہ السلام میں آپ نے فرمایا کہ نمازِ شب قبر میں چراغ کا کام دیتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ عذاب قبر سے بچانے کے لیے منکر نکیر کے سوالوں کا جواب بن جاتی ہے ۔،اس کے علاوہ موت کے فرشتے کے ساتھ ساتھ سمجھوتہ اور دوستی کا باعث بن جاتی ہے ۔ اتنے زیادہ فیوض و برکات اگر نماز شب کے متعلق امام صادقؑ کے فرامین کے مطابق ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نماز شب ادا کرنے سے کوسوں دور ہیں ۔ اسی لیے امام جعفر صادقؑ نے فرمایا ہے کہ
” جو شخص نماز شب ادا نہیں کرتا وہ ہمارے شیعوں میں سے نہیں ہے۔”
اس لیے اگر ہم اپنے آپ کو محبانِ اہل بیت رسولؐ میں شمار کرتے ہیں۔ تو ہمیں آپؐ کے فرامین اور اعمال کو اپنانا ہو گا ۔ آپ کے درخشاں و معطر اسوہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا ۔ آپ کی محبت میں جوصعوبتیں اور تکالیف آئیں انہیں خندہء پیشانی سے برداشت کرنا ہوگا اور آپ کے بتائے ہوئے فرامین کے مطابق غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں کا حاجت روا بننا ہو گا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم دل کی گہرائیوں سے محمد و آل محمد علیہ السلام کی سیرت پر عمل کر کے اس سے محبت کریں گے اور دن رات آپ حضرات پر درود و سلام کے نذرانے نچھاور کریں گے۔
اور نمازِ شب میں ہماری اللہ کی بارگاہ میں سسکیاں ، آہیں اور آنسوؤں کی برسات مغفرت کا باعث بنتی ہے ۔ اللہ رب العزت وہ رحیم و کریم ذات ہے جسے نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی اونگھ ۔کیونکہ کا ئنات میں کسی وقت کسی پتھر یا کسی اور جگہ پر جب کوئی کیڑا بھی رزق کے لیے صدا دے تو اللہ تعالیٰ سائل کی فریاد سنتا ہے اور سائل کو عطا کرتا ہے ۔ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی ثناء کرتا ہے۔ کسی بھی غم زدہ کی سسکی، آه یا فریاد جب اس کی بارگاہ میں جاتی ہے تو وہ ضرور پوری فرماتا ہے ۔ کیونکہ وہ رحمان بھی ہے رحیم بھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم میں "رحمان و رحیم” اکھٹا آیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی وحدانیت کا دل و زبان سے اقرار کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں ٹھہراتا۔ اللہ رب العزت اس کو بھی رزق دیتا ہے اور رحیم اس لیے کہ وہ مہربان رب اس شخص کو بھی بھوکا نہیں سونے دیتا۔ جو اسکی وحدانیت کا منکر ہے بتوں، ستاروں اور آتش کی پرستش کرتا ہے بلکہ اللہ رب العزت تو یہاں تک فرماتا ہے
کہ جو کوئی بھی اشک ندامت لے کر آئے اور میری آغوشِ رحمت میں محبت سے لبریز ، اشتیاق و فریفتگی سے بھر پور اور وارفتگی و شیفتگی سے سسکیوں اور استغفار کا نذرانہ پیش کرے تو میں اس کی لغزشوں کی آلودگی کو اس طرح صاف کرتا ہے جیسے ایک معصوم بچہ لغزشوں سے پاک ہوتا ہے اور معصوم بچہ تو ایک غنچے کی مانند ہوتا ہے جو خوشبو کے ایک جھونکے کا احساس دلاتا ہے یہ معصوم بچہ سحر کا تارا ہوتا ہے ۔ معصوم بچہ چودھویں کا چاند ہوتا ہے جیسے چودھویں کا چاند دلوں کو مسرت اور روح کو سکون دیتا ہے ایسے ہی معصوم بچہ ہر کسی کی آنکھوں کو بھاتا ہے اور اچھا لگتا ہے نمازِ شب ادا کرنے والے کا چہرہ معصوم بچے کی مانند منور ہو جاتا ہے حدیثِ نبویؐ ہے
"کیا تم نہیں دیکھتے کہ نمازِ شب پڑھنے والے لوگ سب سے زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں؟
اس لیے کہ جب یہ لوگ خدا کے لیے نماز پڑھتے ہوئے رات گزار دیتے ہیں تو خدا بھی اپنے نور سے ان کے وجود کو زینت دے دیتا ہے” اسی لیے وہ مومن جو نماز شب پڑھتے ہیں وہ کائنات کا وقار ہیں ۔ زمین کا حسن ہیں کیونکہ وہ محمدؐ وآل محمد علیہ السلام کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے آئمہ طاہرین کی ساری زندگی کسی بھی حالت میں کوئی نمازِ شب قضا نہیں ہوئی ۔ میں ان محبین کا تذکرہ کر رہا ہوں کہ جن کو مولا علیؑ نے کہا ہے کہ یہ میرے شیعہ ہیں ۔ اور ان محبین کا ذکر کہ جنہیں امام جعفر صادقؑ نے اپنا شیعہ کہا ہے اس شخص کا تذکرہ نہیں کر رہا جو غفلت کی نیند سو جاتا ہو اور فرائض کے ساتھ اسے نماز شب کا کوئی احساس نہیں ہو تا حالانکہ وہ ذکر اہلبیت کرتا ہے مجالس میں جاتا ہے ماتم کرتا ہے لیکن دیگر احکام الٰہی پر عمل نہیں کرتا۔
میرے قلم میں اتنی جرات نہیں کہ میں امام حسینؑ کے ماتمیوں کے خلاف کچھ لکھوں کیونکہ میں خود نوحہ خواں ہوں، سلام اور منقبت لکھتا ہوں اور میں خود ماتمِ حسینؑ کا گرویدہ ہوں میں تو صرف تعمیر کردار کی نیت سے ذکر کر رہا ہوں ۔ اور آئمہ معصومین کے فرامین نقل کر رہا ہوں تا کہ کوئی وہم میں نہ رہے کہ ہمارے آئمہ کیا چاہتے ہیں اور اس چیز کا ذکر کر رہا ہوں جس کا ہمارے آئمہ طاہرین نے حکم دیا ہے۔ کسی بھی بے نمازی اور اعلی و ارفع کردار اور اقدار سے خالی شخص کو مولا علی نے اپنا شیعہ نہیں کہا۔
نمازِ شب کے پلِ صراط اور قبر میں کیا فائدے ہیں میرے ان اشعار میں ملاحظہ کیجیے:۔
خدا کے عشق میں بندے سے جو سجدے کراتی ہے
لحد میں وہ نمازِ شب نمازی کو بچاتی ہے
نمازی کا پکڑ کر ہاتھ پُل سے پار جاتی ہے
یہ فردوسِ بریں تک راستے آساں بناتی ہے
سیّد حبدار قائم
آف غریب وال، اٹک
کتاب ” نماز شب ” کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔