کیمبل پور سے اٹک تک – 15

تحریر:

سیّدزادہ سخاوت بخاری

گزشتہ قسط تک ملک حاکمین اور عاشق کلیم وغیرہ کا ذکر خیر ہوتا رہا ۔ آئیے اب بات ہوجائے ان حضرات کی ، جو ہمارے دور میں گورنمٹ کالج کیمبل پور کے طالب علم تھے لیکن بعد میں نامور سیاست دان ،  ادیب ، شاعر ، جج ، جرنیل ، وکیل اور بیورو کریٹ بن کر ابھرے ۔  

1967 میں جب ہم کالج میں داخل ہوئے تو ، طاہر خان آف باہتر ،  احسن خان آف غورغشتی ، قاضی خالد محمود آف جتیال ، ممریز خان آف فورملی ، مرزا حامد بیگ ، احمد جاوید گرو ،  منیر پراچہ ، شیخ احسن الدین ، احمد شجاع پاشا ، اکبر یوسف زئی اور مظہر الدین سمیت کئی لڑکے ، ہمارے ہم جماعت یا ہم سے ایک آدھ سال سینئر ، زیر تعلیم تھے ۔

ہم نے ابھی کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ انجمن اتحاد طلباء یعنی اسٹوڈنٹس یونین کے الیکشن آگئے ۔ طلباء برادری تین واضح دھڑوں میں بٹ گئی ، چھاچھی گروپ ، قاضی خالد اور احسن خان وغیرہ کی قیادت میں سامنے آیا جبکہ زمیندار طبقے سے طاہر خان آف باہتر اور دیگر طالب علم راہنماوں نے اپنا دھڑا ترتیب دیا ، تیسرا اور سب سے بڑا گروپ شہری طلباء پہ مشتمل تھا ، جس کی قیادت مرحوم اکبریوسف زئی کررہے تھے ۔

الیکشن مہم شروع ہوئی ، ہم شہری گروپ کا حصہ تھے لھذا ہمارے لئے ووٹرز سے رابطہ نسبتا آسان تھا کیونکہ طلباء کی اکثریت کیمبل پور شہر سے تعلق رکھتی تھی ، اس کے باوجود ہم نے علاقہ چھچھ کے گاؤں گاؤں گھوم کر ووٹ اکٹھے کئے ، چھاچھیوں کے لئے شہر سے ووٹ لینا آسان نہ تھا ، ادھر زمیندار طبقے تک ہماری رسائی مشکل تھی کیونکہ وہ برادری سسٹم میں جکڑے ہوئے تھے ۔

Government Postgraduate College Attock
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک – تصویر: سردار ساجد محمود خان

قصہ کوتاہ کئی روز کی انتخابی مہم کے بعد الیکشن ڈے آن پہنچا ، دن بھر پولنگ جاری رہی ، ہر گروہ اپنی کامیابی کے لئے پرامید تھا ، ہم شہری اگرچہ تعداد میں زیادہ تھے تاہم ، طاہر خان کی کھٹڑ برادری ، اعوان اور جنوبی دیہات سے تعلق رکھنے والے زمیندار گھرانوں کے سپوت اور علاقہ چھچھ کے خوانین اور صاحبان ثروت کی موجودگی میں فتح حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ، درج بالا عوامل ہم شہری طلباء کے لئے اکثر دیہاتوں میں سد راہ ثابت ہوتے رہے ۔ کئی گاؤں میں ہمیں مزاحمت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن کسی نہ کسی طور ہم نے اپنا پیغام طلباء تک پہنچایا اور باالآخر الیکشن ڈے کی شام قرعہ فال شہری گروپ کے امیدوار اکبر یوسف زئی کے نام نکلا ۔ اکبر بھائی گورنمنٹ کالج کیمبل پور کی طلباء یونین کے صدر منتخب ہوگئے ۔

نعرے لگے ، خوشیاں منائی گئیں اور جلوس کی شکل میں اکبر یوسف زئی کو ان کے گھر تک لایا گیا ۔ ہم جیت تو گئے لیکن ناکام رہ جانے والے ساتھیوں نے ، پاکستان کی سیاسی روایات کے مطابق ، ہماری جیت تسلیم کی اور نہ ہی اپنی شکست ۔

کالج انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد ، بٹلر بلاک کے عقب میں برق روم کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ طلباء یونین کے آفس سے کے لئے منتخب کیا گیا ۔ پراکٹورل بورڈ تشکیل ہوا ، جس میں دیگر کے علاوہ مجھے بھی نمائندگی ملی ۔

یہاں تک تو سب اچھا تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ اور جمہوری روایات کے برعکس ، ایک ایسا رویہ تھا ، جسے میں آج تک بھلا نہیں سکا ۔

قارئین نوٹ فرمالیں ، اگرچہ میں خود بھی ایک سیاسی کارکن رہ چکا ہوں اور میرا خاندان آج بھی ضلعی اور ملکی سیاست میں ، متحرک ہے لیکن میرا اب کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ، میرے لئے ضلع بھر کے سیاسی زعماء قابل قدر ہیں اور جو واقعات میں قلم بند کررہا ہوں ، اس کا واحد مقصد ، نئی نسل کو کیمبل پور کی تاریخ سے روشناس کرانا ہے ۔

عرض کررہا تھا کہ طلباء یونین کے انتخابات تک تو حالات خوشگوار رہے لیکن بقول میرؔ :

ؔوہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

ہوا کچھ اسطرح کہ جب طلباء یونین نے سرگرمیاں شروع کیں تو حزب اختلاف نے قدم قدم پہ روڑے اٹکانا شروع کردئیے ، مشاعرہ ہو کہ مباحثہ یا کوئی بھی تقریب ، ہنگامہ آرائی سے خالی نہ ہوتی تھی ۔

( جاری ہے )

SAS Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

قصیدہ نور کا (حصہ دوم)

منگل ستمبر 7 , 2021
شفیق رائے پوری مشکل بات کو اتنی آسانی سے کہتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ دو لائنوں کے شعر میں بہت بڑا موضوع کتنی آسانی سے سمو دیا ہے
قصیدہ نور کا (حصہ دوم)

مزید دلچسپ تحریریں