دنیا میں بہت سی شریعتیں رائج ہیں۔ ہر ایک مذہب اپنی شریعت کو اعلیٰ مانتا ہے۔اس شریعت کی معرفت حاصل کرکے اس پر عملی زندگی گزارنے والے کو عارف کہا جاتا ہے۔ خدا کی رحمت سے تو حید کی منزل پر پہنچا ہوا عارف زمین کی طرح ہوتا ہے جس پر نیک و بد سبھی چل سکتے ہیں۔ وہ ان بادلوں کی طرح ہیں جو ان سب کو ایک جیسا سایہ دیتے ہیں، ۔ وہ اس ابر کی مانند ہے جو بلا امتیاز سب پر ایک جیسا برستا ہے۔ شریعت اور حقیقت کو مکمل طور پر جاننے والے عارف کے ذریعے کی گئی نقطہ چینی کو لمحہ بھر کے لئے ایک طرف رکھ کر سوچنا چایئے کہ ہم سب خدا کو پانے کے لئے ہی ساری عمر مندرو ں، مسجدوں، گرجا گھروں وغیرہ میں پوجا پاٹ، دعا وغیرہ کرتے رہتے ہیں۔ کیا ہمیں یہ سب کرنے کے باوجود کبھی نور الہیٰ کی ایک شعاع بھی نظر آتی ہے؟ یا ہماری روح اندر کی طرف سمٹی ہے، کیونکہ یہ راستہ یا ذریعہ مذہب کی ہر طرح کی شریعت سے بالاتر ہے۔ جب تک دل صاف نہیں ہوتا اور روح کا اللہ سے وصال نہیں ہوتا، ہماری دکھاوے کی مذہبی زندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جب کوئی حقیقت شناس ہماری دیرینہ کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اسکا ہمارے اند ایک زبردست ردعمل ہوتا ہے۔ ہم خودی کے طابع ہوتے ہیں۔ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ہم دراصل سالہا سال تک غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خودی اور لاعلمی کے سبب ہم صحیح بات کو بھی غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسکے برعکس جو لوگ حقیقت بیانی کا وار برداشت کرکے عقل و دانش سے کام لیتے ہیں ان کے اندر غلطی کااحساس پچھتاوے میں اور پچھتاوا حقیقت کو اپنانے کی دلیری میں بدل جاتا ہے۔ اور اس طرح وہ لوگ اندھیرے سے روشنی میں پہنچ جاتے ہیں۔ ہر انسان کا جنم کسی نہ کسی خاص مذہب و ملت میں ہوتا ہے۔
اسے اس مذہب کی شریعت ورثہ میں ملتی ہے لیکن روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان سچائی، قناعت اور بردباری وغیرہ جیسے نیک اوصاف اختیار کرے۔ یہ دونوں مرحلے عبور کرنے کے بعد اب طالب دماغی طور پر حقیقت کو سمجھے۔ اس کے بعد معرفت میں داخل ہونے کے قابل ہوتا ہے۔ اور آخر میں وہ ترقی کرتا ہوا خودی یعنی نفس کو ترک کرکے معرفت کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
گورو نانک صاحب نے بھی ”جب جی“میں پانچ کھنڈروں (روحانی طبقات) کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح صوفی درویشوں نے روح کے عروج کی پانچ منزلوں یعنی ملکوت، جبروت، لاہوت، ہوت الہوت اور ہوت کا بیان کرتے ہوئی روح کی طریقت اور حقیقت کے ذریعے معرفت تک رسائی کا اشارہ کیا ہے۔ شریعت راہ حقیقت میں پہلا قدم ہے۔ اس کا اصل مقصد مذہب اور عقبیٰ کی طرف رجحان بیدار کرنا ہے۔ لیکن معرفت کو پانے کا ذریعہ قلب کی صفائی اور کلمہ کی ریاضت ہی ہے۔ نامور صوفی شیخ گردوانی سچے صوفی عابد کے لئے جو ہدایات درج کرتے ہیں ان میں تمام زندگی کو ایسی سخت ریاضت کے طابع کیا گیا ہے کہ دنیا کی سخت سے سخت شریعت کا رنگ بھی اسکے سامنے پھیکا پڑجاتا ہے۔ یہ ہدایات اس طرح ہیں
ہوش درم: یعنی ہر سانس رب کی حضوری کے احساس میں لینا
نظر ربر قدم: ہر قدم رب کی حضوری کے احسا س سے اٹھانا
سفر در وطن: ہمیشہ اپنے اصل گھر لوٹنے کا خیال دل میں رکھنا
خلوت دار انجمن: دنیا میں رہتے ہوئے بھی دل سے تنہا رہنا
یاد کردن: زبان یا روح کی زبان سے ہمیشہ خدا کا زکر کرتے رہنا
بازگشت: نفس کو برے خیالات سے دور رکھتے ہوئے ذکر خدا میں مشغول رہنا
یاد داشتن: ہمیشہ رب کی حضوری میں ہونے کا احساس ہونا
اسکے برعکس مذہبی پیشہ ور اور خود غرض لوگ جنکی روزی مذہبی رسومات کے عمل پر منحصر ہے معصوم سادہ لوگوں کو طرح طرح کے توہمات میں پھنسا کر سچی روحانیت سے گمراہ کر دیتے ہیں۔ لوگ خدا کی راہ میں بھٹک رہے ہیں جبکہ وہ محبوب حقیقی ہر انسان کے اندر شہ رگ سے زیادہ قریب موجود ہے۔ انسان اور خدا کے مابین پیڑ اور باغ والا قدرتی رشتہ ہے اور انسان بھرموں کو ختم کرکے اپنے اندر ہی خدا سے وصال کر سکتا ہے۔ خدا کے ملنے کا ذریعہ اس طرح کے بیرونی اعمال نہیں بلکہ ہر انسان کے اندر گونجتا ہوا الہیٰ کلمہ ہے۔ گورو صاحب نے اپنی مشہور تصنیف ”آسادی وار“ میں ہندوٗوں جینوں بودھوں مسلمانوں اور جوگیوں کی ہر قسم کی شریعت پر نقطہ چینی کی ہے اور ہر طرح کی شریعت کو کلمہ کی کمائی کے مقابلے میں ادنیٰ اور بے قائدہ بتایا ہے۔ آپ نے منتر، دیو پوجا، تیرتھ یاترا اور مذہبی کتابوں کا مطالعہ، جنگلوں میں گھومنا، مالا پھیرنا دھونی رمانا، جگراتے کرنا، خاموشی اختیار کرنا، فاقے وغیرہ رکھنا کو لاحاصل عمل کہا ہے۔ فقیرانہ وضع قطع اختیار کرنے والے لوگ خدا کی عبادت سے نہیں بلکہ پیٹ بھرنے کی امید سے خوش ہو کر میزبانوں کی قصیدہ گوئی کرتے ہیں۔ کامل فقیر بھی ساری مخلوق کے یکساں ہمدرد ہوتے ہیں اسی لئے وہ کسی خاص مذہب و ملت سے بندھے نہیں ہوتے۔ فقیر کامل رب کے ساتھ وصال کے صحیح راستہ کی تائید اور غلط راستے کی تروید کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تاکہ لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہو کر کہیں انسانی جنم کے بیش قیمت موقع کو گنوا نہ دیں۔ وہ لوگ عوام کی بھلائی کی خاطر طرح طرح کی اذیتیں برداشت کرکے بھی سچ کی مشعل روشن رکھتے ہیں۔ عبادت گاہوں کو مذہبی پیشہ ور لوگوں نے اپنا پیٹ بھرنے کا زریعہ بنا لیا ہے۔ جب تک دل سے سچی دعا نہیں نکلتی مندروں، مسجدوں میں ماتھا رگڑنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حضرت عیسیٰ نے بھی کہا تھا کہ جو لوگ عبادت گاہوں کو بیو پار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں انکو عبادت گاہوں سے باہر نکال دو۔ کیونکہ خدا کا گھر اس کی پرستش کے لئے ہے دکانداری کے لئے نہیں۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔