کیمپبل پور کی سرزمین نے (میں نے جان بوجھ کر اٹک نہیں لکھا اس لیے کہ مجھے یہ نام کبھی اچھا نہیں لگا) پاکستان کو ہر میدان میں زندگی کے ہر شعبے میں نامی افراد دیئے ہیں، ادب کے حوالے سے بھی یہ سرزمین بہت زرخیز ہے یہاں ادب کی ہر صِنف میں اعلیٰ اور معیاری لکھنے والوں کی ایسی بڑی تعداد موجود ہے کہ ہم کیمپبلپور کو ایک دبستان کہہ سکتے ہیں، اسی دبستانِ کیمپبلپور میں ایک بڑا، معتبر اور اہم نام جنابِ سردار سلطان محمود خان بسؔمل مرحوم و مغفور کا ہے
میرے ہاتھوں میں اس وقت کلیاتِ بسؔمل ہے اور میں اس کے مطالعے میں بہ دل و جاں مگن ہوں، سردار صاحب کی زندگی میں شاید دو ہی کتابیں اشاعت آشنا ہوئی تھیں ساغرِ سم، اور زندگی کے میلے میں، اور اب اُن کی وفات کے 16 سال بعد اُن کے بیٹوں سردار ساجد خان اور سردار باقر رضا خان نے اپنے مرحوم والد کی غیر مطبوعہ تین کتابوں تلخاب، خواب میں جنگل اور نوائے دل سمیت کلیات چھپوانے کا اہتمام کیا کتاب کا نہایت خُوبصُورت سرورق آغا جہانگیر علی نقوی البُخاری نے تخلیق کیا اور طباعت کی ذمہ داری ادارہ جمالیات اٹک نے ادا کی قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ سردار ساجد صاحب نے اپنے والد کا یہ خُوبصُورت کلام سنبھال کر رکھا اور ایک خطیر رقم خرچ کر کے چھپوایا، اس طرح نہ صرف کلام محفوظ ہوا بلکہ سردار سلطان محمود خان بسؔمل صاحب اور فرزندان کا نام بھی تاریخ میں زندہ رہے گا، اِن شآء اللہ
نہ میں شاعر ہوں اور نہ ادیب ، ہاں اچھے اور بامعنی و مفید ادب سے عشق کی حد تک محبت رکھتا ہوں، میں سردار سلطان محمود خان بسؔمل مرحوم و مغفور کا اور ان کے بیٹوں سردار ساجد خان اور سردار باقر رضا خان کی محبتوں کا مقروض ہوں، نہ میری نثر اچھی نہ میرا علم اور مشاہدہ کہ اتنی بڑی شخصیت اور اس کے فن پر کچھ کہہ سکوں مگر ان محبتوں کا کچھ تھوڑا سا قرض چکانے کے لیے قلم اُٹھا لیا ہے البتہ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اپنی کم مائیگی کا احساس ہے مجھے،
سردار سلطان محمود خان کھٹڑ قبیلے کے ایک بڑے اور معروف زمیندار سردار محمد خان کے ہاں 31 جولائی 1933 کو پیدا ہوئے، ضلع کیمبل پور میں یہ قبیلہ اپنی مخصوص پہچان اور روایات رکھتا ہے، سیاسی حوالے سے بھی ایک مضبوط اور مستحکم تاریخ رکھتا ہے اور علمی و ادبی حوالہ بھی نہایت شاندار ہے بسؔمل صاحب بھی انہی اعلیٰ روایتوں کے امین تھے اور ان روایات کو زندگی بھر یوں نبھایا کہ اُن سے ملنے والا، اُن کی محفل میں بیٹھنے والا کوئی بھی شخص اُن کو آج تک بُھلا نہیں پایا، بہترین مہمان نواز اور شفیق ہستی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک کھٹڑ سردار بھی تھے جس کا اظہار ان کی شاعری میں اکثر ملتا ہے مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ فرمائیں
پوچھیں گے نہ وہ حال اگر اپنی زباں سے
مر جائیں گے اظہارِ تمنا نہ کریں گے
سردار صاحب فطری طور پر شاعر تھے اور بہت بچپنے میں ہی شعر موزوں کر لیتے تھے میرے خیال میں شاعری ہے ہی خُدا داد صلاحیت کا نام، شاعر ہوتا ہے، شاعر بنا نہیں جا سکتا، اور جو بنتے ہیں اُن کی شاعری خُود بتا دیتی ہے، بسؔمل صاحب کی شاعری معانی و مطالب سے بھرپور مگر آسان اور عام فہم ہے، اور جو کچھ دیکھتے ہیں اسے بے ساختہ شعر میں ڈھال لیتے ہیں اور یہی فطری شاعر کا کمال ہوتا ہے دو اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں
کوئی تو ہو جسے سچ بولنے کا یارا ہو
کہ اب تو جھوٹ کے پرچم اُٹھائے جاتے ہیں
جھوٹ کہنا ہے اک گناہِ عظیم
سچ کا اظہار بھی مصیبت ہے
لفظِ شعر کا منبع و ماخذ شعور ہے یعنی کسی شے کے بارے میں جاننا یا سوچنا، اور شاعری دراصل ایسا منظم کلام جس میں علم اور سوچ کا عمل دخل ہو، باشعور انسان ہی حساس بھی ہوتا ہے چنانچہ سلطان محمود بسؔمل صاحب کی شاعری حساسیت سے پُر ہے دو اشعار دیکھئے
بیتِ حوادث میں رہتا ہوں
ہر دم وار نیا سہتا ہوں
زیست کےٹھکرائے لوگوں کی
درد انگیز صدا سنتا ہوں
پُر اثر شاعری کے لیے سب سے بنیادی شرط کائنات اور موجودات کا علم ہے، آفاقی سچائیوں کو خاص انداز اور باریک بینی سے جانچنے کی صلاحیت ہے اور یہی چیز شاعر کے اندر منفرد تخیلات کو جنم دیتی ہے اور بسؔمل صاحب کے کلام میں یہ انفرادیت جا بجا ملتی ہے بطور مثال دو اشعار ملاحظہ کیجئے
محل کے سامنےاک شور تھا قیامت کا
امیرِ شہر کو اونچا سنائی دیتا تھا
بِکنے لگا ہے پھر کوئی یوسف ستم زدہ
سجنے لگا ہے مصر کا بازار دیکھنا
شاعری کی خُدا داد صلاحیت، علم اور تخیل کے ساتھ ساتھ موزوں الفاظ کا چُناؤ اور عمدہ بیانیہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، وہی شعر بہترین کہلانے کا حق دار ہو سکتا ہے جس میں علم کی بلندی، خیال کی پختگی، الفاظ کا ارفع چُناؤ اور انشاء پردازی بہ یک وقت موجود ہو اور اس کی مثال کلامِ بسؔمل میں دیکھیے،
وہی شہر ہے، وہی رہگزر، وہی لوگ ہیں، وہی بام و در
جنہیں ڈھونڈتی ہے میری نظر وہ اُفق کے پار چلے گئے
نہ گِلے ہیں اب نہ شکایتیں، نہ تیرے ستم کی حکایتیں
تیری بزمِ ناز کو چھوڑ کر ، تیرے دل فگار چلے گئے
کیوں تُجھ کو تعجب ہے میری کم سُخنی پر
اِک عمر تغافل کا سزاوار رہا ہوں
اچھی اور معیاری شاعری انسان کے جمالیاتی ذوق اور احساسات کی پرورش کرتی ہے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شاعر بعض اوقات دو مصرعوں میں ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ اگر اس شعر کو کھولا جائے تو ایک پوری کتاب وجود میں آ جائے اور ایک فطری شاعر بعض اوقات ایسا تخیل مضمون میں ڈھال دیتا ہے جو وقت اور زمانے کی قید سے آزاد ہوتے ہیں اور بعض مراحل پر گزرے حالات و واقعات کو کچھ ایسے انداز میں بیان کر دیتا ہے کہ جیسے ابھی اس کے سامنے وقوع پذیر ہو رہے ہوں اور پڑھنے یا سننے والا اپنے آپ کو اس مقام پر محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہے اور یہی خوبی نہ صرف شعر اور شاعر کے مقام و مرتبے کا تعین کرتی ہے بلکہ شاعر کو ہر دلعزیز اور مقبول بناتی ہے آئیے کلیاتِ بسؔمل میں سے کچھ اشعار ایسے تلاش کرتے ہیں
دماغ عرش پہ ہے اور سر ہے سجدے میں
عجب سرور ہے طاری حریمِ کعبہ میں
سنائی دیتی ہے کانوں میں رات دن بسؔمل
صدائے گریہ و زاری حریمِ کعبہ میں
دل میں رسولِ ؐپاک کی اُلفت لیے ہوئے
پھر جا رہا ہوں شوقِ زیارت لیے ہوئے
رشکِ چمن ہے شہرِ مدینہ کی ہر گلی
ہر رہگذر ہے حُسنِ لطافت لیے ہوئے
یہ بھی کرم ہے مُجھ پہ رسولِ ؐکریم کا
میرا سخن ہے بحرِ فصاحت لیے ہوئے
خاکِ مقتل ہے جس کی خاکِ شفاء
عجب اکثیر ہے حسینؑ کا نام
اسم ہائے دعا ہیں پانچوں تن
عجب اکثیر ہے حسین ؑکا نام
درسِ عبرت ہے آج نامِ یزید
وجہِ توقیر ہے حسینؑ کا نام
سردار سلطان محمود خان بسؔمل ایک نستعلیق شخصیت، بلند پایہ شاعر اپنے قبیلے کا ہر دلعزیز سردار 12 جنوری 2004 کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اور اپنے بارے میں کیا ہی مبنی بر حقیقت کہہ گئے کہ
نہ جانے کب ملے گا پھر وہ بسؔمل
بہاریں چھوڑ کر جو جا رہا ہے
اللہ تعالیٰ سردار بسؔمل صاحب کی بخشش فرمائے اور بہشت بریں میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
سیّد مونس رضا
معلم، مدبر، مصنف
ریٹائرڈ او رینٹل ٹیچر
گورنمنٹ پائیلیٹ ہائر سیکنڈری اسکول
اٹک شہر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “کلیات بسؔمل”
Comments are closed.