سورہ توبہ آیت نمبر 105 میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے
وقل اعملوا فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون ط
توبہ 105
ترجمہ:۔
اور کہہ دیجیے کہ تم عمل کرتے رہو، سو دیکھے گا اللہ تمہارے اعمال کو اور اس کا رسولؐ اور مومنین بھی ۔
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے اعمال کو اللہ، اس کا رسولؐ اور مومنین دیکھتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ مومنین کون ہیں؟ جو ہمارا عمل دیکھتے ہیں کیونکہ ہم تو ایک دوسرے کا عمل نہیں جانتے کہ کون کیا کر رہا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام مذکورہ آیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ "اس آیت میں مومنین سے مراد ہم آلِ محمدؐ ہیں”۔ جن کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ہم اپنے مومنین کے اچھے اعمال دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور برے اعمال دیکھ کر رنجیدہ ہوتے ہیں ۔
نمازِ شب مومن کی پہچان ہے اور اس کے اجر کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ جتنا تذکرہ اس سے پہلے کر چکا ہوں یہ سب آنحضورؐ کے فرامین اور آپ کی طاہر اہلبیت کے فرامین کی روشنی میں لکھا ہے ۔ کیونکہ جہاں ہمارے علم کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے ان طاہر ہستیوں کے علم کی ابتداء ہوتی ہے۔ ہمارا روز کا عمل جب ان ہستیوں کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ تو آئمہ معصومین دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے۔ اس کا اظہار میں کیسے اپنے الفاظ میں کروں؟ کیونکہ قلم کی نوک شرم سے رک جاتی ہے اور ہاتھ بے ساخته کانپ جاتے ہیں ۔ وہ اس لیے کہ ہمارے اعمال نہ جانے کیوں کم تر ہو کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ آئمہ معصومینؑ کی روشنی میں وہی بندہ اُن کا محب ہے جو ان کی مکمل طور پر پیروی کرتا ہے اگر آئمہ نمازِ شب پڑھیں تو محب نمازِ شب پڑھیں ، اگر وہ حج کر یں تو محب حج کریں ، اگر وہ خمس و زکوة دیں تو محب بھی اس کارِ خیر کو احسن طریقے سے سرانجام دیں۔
اگر آئمہ حرب وضرب سے اسلام کی حدود کی حفاظت کریں تو محب کو بھی اس میدانِ عمل میں اترنا چاہئے۔ اگر آئمہ طاہرین یزیدیت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ناموسِ اسلام کے لیے اپنے اہل وعیال کی قربانیاں دیں تو محب کو بھی مذہب کے لیے خونِ دل دیکر چراغاں کرنا چاہیے۔
اگر آئمہ معصومین رات کی تنہائیوں میں اپنی نورانی جبینوں کو سجدہ ریز کریں تو محب کو نمازِ شب کا دامن تھام کر سچا حبدار اور مومن بننے کا ثبوت دینا چاہیے۔
میں قرطاس پر رقم کر رہا تھا کہ ہمارا ہر روز کا عمل آئمہ طاہرین کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے تو مولا علیؑ مومنین کے نیک اعمال کے نقائص دور فرما کر یعنی ان اعمال کی تصحیح کر کے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں ۔
ہمارے گناہوں کے انبار جب مولا علیؑ دیکھتے ہوں گے تو ہمارے وہ امام جو جنگِ خیبر میں مرحب کی دہشت سے پریشان نہ ہوئے جو جنگِ خندق میں عمرو بن عبدود کی تلوار کی تیز دھار سے مرعوب نہ ہوئے اور جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں ذوالفقار لے کر کود گئے وہ ہمارے مولا علی کرم اللہ وجہہ اپنے ماننے والے محبین کا عمل دیکھ کر ضرور پریشان ہو جاتے ہوں گے۔ ہمارے نفیس مزاج امام حسنؑ جو امن و سلامتی کے سفیر تھے اپنے محبوں کی بد امنی، بے عملی اور گروہی تقسیم پر خون کے آنسو روتے ہوں گے ہمارے وہ امام حسینؑ جو مسلمانوں کے پتھروں نیزوں تیروں اور تلواروں بلکہ امت کی دی ہوئی تشنہ لبی سے پریشان نہ ہوئے اور حضرت علی اصغرؑ کی عظیم قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا اور جنہوں نے نمازی کی پہچان ہی ایسے کرائی تھی کہ کائنات میں نہ پہلے کسی نے کرائی تھی اور نہ ہی اس عظیم مرتبے تک کسی کی رسائی ممکن ہے آپ نے نمازی کی پہچان ہی اس طرح کرائی کہ سجدے میں سر مبارک خود رکھا لیکن اٹھایا کسی اور نے۔
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔