مقامی رنگ و روپ کا حقیقی شاعر

پروفیسر غلام ربانی فروغؔ: مقامی رنگ و روپ کا حقیقی شاعر

از: پروفیسر اظہر محمود تنہاؔ اٹک

                                                حقیقی ادب زندگی کی ترجمانی اور نقش کشی کرتا ہے۔ زندگی چونکہ حرکت پذیر ہے اسی لیے ادب میں بھی ارتقا لازمی امر ہے۔ زندگی میں بپا ہونے والے حادثات اور حالات یقینی طور پر انسانی ذہن اور شعور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ آفاقی صداقت کسی بھی شبے سے ماورا ہے کہ ادب کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔ اس نقطہ نظر سے پرکھا جائے تو یہ رائے قرینِ قیاس نہیں کہ ہمارا کلاسیکل ادبی سرمایہ معاصر صورت حال کا ترجمان نہیں بلکہ محض خیالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر تخلیق کار اپنے ماحول اور معاشرے کی پیداوار ہوتا ہے اور اس کے ذہن اور شعور کو گردوپیش کی تعمیر و تخریب اور ماحولی تبدیلیاں ضرور متاثر کرتی ہیں۔

Professor Ghulam Rabbani Frogh
پروفیسر غلام ربّانی فروغؔ

                                                یہ بھی سچ ہے کہ تنقید و تخلیق سے وابستہ کچھ افراد ادب کو ہیئت، موضوع، متن اور ماہیت کے نقطہئ نظر سے بھی سمجھنے اور پرکھنے کے قائل ہیں جبکہ اردو کے ایک معتبر ناقد ڈاکٹر سید عبداللہ نے ادب کی جامع تعریف درج ذیل مختصر لفظوں میں یوں کی ہے۔ ”ادب فنِ لطیف ہے جس کا موضوع زندگی ہے اس کا مقصد اظہار، ترجمانی اور تنقید ہے“۔

                                                درحقیقت قارئین ادب، ادب کے ذریعے ہی شعراء ادبا کے مشاہدے، تجربے، دانش اور زندگی سے وابستہ تفکرات سے آگہی حاصل کرتے ہیں۔ ادب ہی کسی معاشرے کے احساسات و جذبات اور حرکات و نتائج کا منفرد ذریعہ اظہار ہے۔

                                                اس ادبی تناظر میں پروفیسر غلام ربانی فروغ ؔکی پنجابی شاعری کا فکری تجزیہ کیا جائے تو دیہی فضا، میلوں کی مہک، مقامی بُوباس اور رسم و رواج کے رنگ اور سج دھج واضح دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے زندگی کے متنوع اور وسیع پہلوؤں کو ادب کے سانچے میں ڈھالا اور کلام کو شعوری طور پر فطرت، سماج اور جمہور کی دھڑکنوں کا ترجمان بنا دیا۔ مقامی رنگ و روپ اور جذبات کی یہی ترجمانی اور نقوش کشی، ان کا شعری وصف اور امتیاز ٹھہرا ہے۔

                                                اٹک کے ادبی ماحول میں منفرد لہجے اور شعرا و ادبا کے حلقے میں معروف شناخت کے حامل غلام ربانی فروغ ایک سچے اور کھرے فنکار کے طور پر ابھرتے اور اپنی نمایاں ادبی حیثیت منواتے نظر آتے ہیں۔

                                                یہ مسلمہ ہے کہ اٹک کی دھرتی تخلیقی لحاظ سے از حد زرخیز اور پُرمایہ رہی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد کی دہائیوں میں بھی ادبیات کے منظر نامے پر اٹک سے کئی فنکاروں اور شخصیات نے ایک ذی شان جگہ بنائی ہے کہ ان کے تذکرے کے بغیر اب نہ تو ادب کی تاریخ مکمل نظر آتی ہے اور نہ ہی علمی، تحقیقی اور تنقیدی خطوط کے کامل نقوش ابھرتے ہیں۔ اٹک کی ادبی و تخلیقی جہات اور علم و عرفان کی اس کہکشاں کے چند تابندہ و تابناک ستاروں میں شاکر اٹکیؔ، غلام جیلانی برقؔ، نذر ؔصابری، حکیم تائبؔ رضوی، منظورؔ عارف، احمد جاویدؔ، پروین ملک، عظیمؔ بھٹی، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحرؔ، مشتاق عاجزؔ، ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ، عبداللہ راہیؔ، ڈاکٹر سعد اللہ کلیمؔ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ادبی افق پر نمایاں ہونے والے متذکرہ بالا فنکاروں نے تخلیق کی متفرق جہتوں میں اپنی مخصوص شناخت بنا لی ہے۔

پروفیسر غلام ربانی فروغ ؔبھی اسی قبیلے کے فرد،اس زرخیز مٹی کی پیداوار اور اسی رہتل بہتل کے ترجمان ہیں۔ ان کی زبان اردو کے علاوہ پنجابی /کیمبل پوری ہے مگر در حقیقت یہ زبان ہندکو اور مقامی بولی اور لہجے کا حسین امتزاج ہے۔

فروغؔ فقیر ہندکو نا مالی

باغ رکڑ مَیرے تے لایا

                                                 وہ اپنے علاقے کی مقامی زبان کے کھرے شاعر اور مقامی رنگ ڈھنگ، وسیب اور نقش و نگار کے حقیقی نقاش کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کے پنجابی شعری مجموعے ”وسنا رہوے گراں“ کے نام اور مشمولہ نظموں کے عنوانات اس امر کا غماز ہیں کہ انہیں اپنے گاؤں یہاں کے طور اطوار، رسم و رواج، سماجی و معاشرتی عناصر اور فطرت سے کس قدر پیار اور وابستگی ہے۔ مجموعے کا ہر ہر صفحہ گاؤں سے ان کی محبت اور وفا کا شاہد اور امین ہے۔

                                                غلام ربانی فروغؔ کے2001ء میں شائع ہونے والے پہلے نعتیہ شعری مجموعے ”حرف نیاز“ کے تین سال بعد مقامی پنجابی زبان میں دوسرا شعری مجموعہ ”وسنا رہوے گراں“ پنجابی ادبی سنگت، اٹک کے زیر انتظام دسمبر 2004ء میں پہلی بار طبع ہوا۔ یہ مجموعہ ایک سو چھہتر صفحات پر مشتمل ہے جس میں ایک حمدیہ نظم۔دس متفرق اشعار، بہ عنوان ”دو برگے“، چوبیس نظمیں، آٹھ قطعات بہ عنوان ”چوبر گے“ اور تیس غزلیات شامل ہیں۔ نہایت دل کش دیہی منظر والے سرورق کے حامل مجموعے کی پشت پر شاعر و نقاد ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد ؔکی تنقیدی رائے تحریر ہے۔ جب کہ ”حرفِ آغاز“ خود شاعر نے لکھا اور بہ عنوان ”دواکھر“ تاثرات کا اظہار شاعر محمد عظیم بھٹی نے کیا ہے۔

                                                پروفیسر غلام ربانی فروغ یکم مارچ 1932ء کو اٹک میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد 1951ء میں پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیر مین ملازمت اختیار کی اور 1975ء میں ملازمت سے سبک دوش ہوئے جب کہ اسی دوران حصولِ تعلیم کا سلسلہ بھی برابر جاری رکھا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے 1982ء میں پہلے پنجابی اور بعد ازاں 1986ء میں ایم۔ اے اردو پرائیویٹ امیدوار کے طور پر کیا۔ پنجاب پبلک سروس کمشن کے ذریعے 1988ء میں پنجابی لیکچرار بھرتی ہو کر1992ء میں ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے۔

(ملخص: شخصیاتِ اٹک،از:نصرت بخاری)

                                                جہاں تک فروغ ؔکی شاعری کے آغاز کا تعلق ہے تو کم عمری سے ہی ان کو لکھنے لکھانے کا شوق پیدا ہو گیا تھا مجموعے میں شامل ”حرفِ آغاز“ میں خود لکھتے ہیں۔

                                                ”مجھے لڑکپن ہی سے اردو شاعری کا شوق تھا۔ ساتویں جماعت سے میں بہ صورت نظم شعر کہنے لگا۔ شاعری کا یہ ذوق و شوق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ 1975ء میں ائیر فورس کی ملازمت سے سبک دوشی کے بعد میں اپنے شہر اٹک آیا تو یہاں ”حلقہ ارباب ذوق“اور”محفل ِ شعرو ادب“جیسی ادبی تنظیمیں سر گرم عمل تھیں۔ (از: ”وسنا رہوے گراں“، ص10)

                                                فکری و لسانی حوالے سے پروفیسر فروغ ؔنے اپنے معاصر شعرا کی شاعرانہ راہ سے الگ روش اختیار کرتے ہوئے اپنی منفرد پہچان بنائی ہے۔ ”وسنا رہوے گِراں“ کی نظمیں اور کسی حد تک غزلیات عام شعری روایت سے ہٹ کر محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے بالکل عام اور مقامی زبان و الفاظ میں اپنے ارد گرد بکھرے حقائق زندگی، میلے، تہوار، خوشی و غم کے متفرق عناصر اور وسیب رنگ کی دل کش اور سچی صورتوں کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے معاشرتی و تہذیبی زندگی سے اپنا تعلق براہ راست قائم رکھا ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعے سے قاری کو ایک حیرت افزا انکشاف ہوتا ہے کہ یہ سب میرے اطراف و نواح کی باتیں اور مشاغل ہیں مگر میں شاید اس زاویے سے کبھی بھی نہ دیکھ پاؤں اور نہ ہی بیان کر سکوں۔ در حقیقت ایک عام شخص اور ایک فن کار میں یہی بنیادی فرق ہوتا ہے۔

                                                ”وسنا رہوے گِراں“ کے شعری راگوں میں بھر پور نغمگی، خلوص اور ایسی توانائی موجود ہے جو قاری کا دھیان اور توجہ کھینچ لیتی ہے۔ اچھے اشعار کی پہچان ہی یہ ہے کہ سنتے یا پڑھتے ہی دل میں اُتر جائیں اور ان سے ایک بامسرت احساس بیدار ہو۔ فروغ ؔکی شاعری ضرور ایسا کچھ سامان اور تاثیر رکھتی ہے جو لائقِ توجہ اور قابل تحسین ہے۔ عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی کی طرح فروغ ؔکی نظمیں بھی عوامی احساسات سے معمور اور گلی کوچوں کی زندگی سے لبریز نظر آتی ہیں۔ عام زندگی کے موضوعات اور عوامی سطح کے حوالے، میلے، رنگ رلیاں، حکمت و دانش کی باتیں اور چہار سو پھیلی زندگی کے جیتے جاگتے نقوش، غلام ر بانی فروغ ؔکو منفرد شناخت عطا کرتے ہیں۔ انہوں نے عمر کا ایک حصہ معلمی کے پیشے میں بھی گزارا اور زندگی بالکل ایک عام آدمی کی طرح صاف گوئی، معتدل مزاجی اور شرافت سے بسر کی۔ چنانچہ انہوں نے زندگی کے ان حقیقی رنگوں کو اپنی شاعری میں منعکس کیا جو خود انہوں نے دیکھے یا جن سے متاثر ہوئے۔ ان کا تخیل بے قابو اور سر پٹ ہونے کے بجائے حقیقت کے تابع نظر آتا ہے۔ اس لیے کسی گہرے شعری فلسفے کی تلاش ان کے ہاں کارِ لاحاصل ہے۔ البتہ یہ کہنا بجا ہے کہ پروفیسر فروغؔ گردو پیش کی عام زندگی، عام سوچ اور عام سماجی سرگرمیوں سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ دیکھا یا جو انہیں نظر آیا، اس کا اظہا رہی ان کی ہنر مندی اور ان کا تخلیقی رویہ ہے۔ بنا بریں ان کے شعری مجموعے کی قدروقیمت اور اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ انہوں نے کئی معاشرتی و تہذیبی رواجوں اور مقامی عناصر کا تذکرہ ایسی دل کش اور نپی تلی مقامی لفظیات میں کیا جو آج نایاب اور ناپید ہو چکی ہے یا ہونے کو ہے اور ستم بالائے ستم کہ لفظیات اور کلچر کے اس سرمائے سے ہماری نوجواں نسل نہ صرف سو فیصد بے بہرہ ہے بلکہ نام نہاد انگریزی میڈیم اداروں سے فارغ التحصیل تو اس کا رَتی برابر وقوف بھی نہیں رکھتے۔ شاعر و نقاد ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے پروفیسر فروغ کی شاعری کے متعلق بجا کہا ہے۔

”پروفیسر غلام ربانی فروغ ؔنے اپنے وسیب نیاں چن ُمکھیاں تے نور نہاتیاں صورتاں واں سُچیاں اکھراں وچ ولھیٹ کے ہمیش واسے زمانے نی دھوڑ توں بچا گھِدا وے۔ ”وسنا رہوے گِراں“ نے ہک ہک ورقے اُتے کیمبل پور نی بھاگاں بھری دھرتی لِشکنی نظر آنی وے۔ ایہہ کوئی معمولی کم نئیں“۔ (از: عقب فلیپ، مجموعہ ”وسنا رہوے گِراں“)

                                                غلام ربانی فروغ ؔکی اسی مقامی لفظیات سے ان کا اسلوب ترتیب پاتا ہے ان کے ہاں جو رچاؤ اور لطافت ہے وہ اسی کی مرہون منت ہے۔ ان کے ہاں یہ مقامی رنگ اور رہتل بہتل پورے فنی شعور کے ساتھ نظموں کی مجموعی فضا پر چھائے نظر آتے ہیں۔ ان کا مشاہدہ بہت عمیق ہے اس وجہ سے ان کے مناظر متحرک ہیں۔ نظموں میں مناظر کا آجانا فطری امر ہے۔ دیہی مقامات کے یہ نظارے قاری کے لیے ہر گز اجنبی نہیں بلکہ یہ سب، دیکھے بھالے معلوم ہوتے ہیں۔ پروفیسر فروغ نے موسموں اور رسموں کے ساتھ معاشرتی اور سماجی صورت حالات اور اس سے جڑے مشاہدات کو بھی اپنی گرفت میں لے کر نظم کر دیا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ فطرت اور مقامیت کے شیدائی ہیں جو ان کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں کرتے ہیں۔

                                                نظم ”رُت بہار نی آمد“ میں فروغ ؔکا مشاہدہ اپنے کمال پر نظر آتا ہے۔ بہار کی آمد جہاں جہاں، جو جو گل کھلاتی اور فطرت کے انگ انگ کو جس طرح دلآویز بناتی ہے انہوں نے بھر پور ی جزیات نگاری سے وہ حسن اور دل کشی پیدا کر دی ہے کہ قاری عش عش کر اُٹھتا ہے۔ اگرچہ ایسی سمعی و بصری تمثالیں موسم بہار میں بہ کثرت نظر آتی ہیں مگر جس سادگی اور ترنم سے فروغ نے مقامی فضا بندی کی ہے وہ قابلِ داد ہے۔

وچھڑے موسم واگاں موڑیاں

سِدھیاں کیتیاں رب اُپٹھیاں

اَساں نے مَیرے کنک ِنسری

اَساں نے ویہڑے داکھاں پُھٹیاں

رُت رنگیلی رنگ پئی چھڑکے

جاگھاں جاگھاں بھر بھر مُٹھیاں

اَج ہُڑیال بھی کالے چٹے وچ

ہُچھ، ہُچھ مارن چھالاں اپُٹھیاں

                                                بہار کی آمد سے فصل پک کر تیار ہوئی، صحن میں انگور کے پودے پر بُور آنے لگا،ہر سُوہریالی اور شادابی نے ڈیرے ڈال دیئے اور اٹک کے مشہور پہاڑی سلسلہ ”کالا چٹا“ میں ہڑیال (مارخور) بھی اچھلنے کودنے لگے۔ سولہ اشعار پر محیط اس نظم کا کینوس خاصا وسیع ہے جس میں مقامی ارضی حوالوں اور مظاہر فطرت سے محبت کا والہانہ اظہار ملتا ہے۔ پوری نظم اسلوبی خصائص سے مملو ہے۔ استعارات اور امیجری کے تنوع اور رنگا رنگی نے نظم کی تاثیر دوبالا کر دی ہے۔

رنگلی رُت نیاں ساویاں پریاں

کالے دیو نی قیدوں چُھٹیاں

نال بہاراں نے مڑ آئیاں

چڑیاں پچھلی رُت نیاں رُٹھیاں

لمبی نیندر سُتیاں بُوٹیاں

اپنی خاکی سیجوں اُٹھیاں

نظم ”باغ نیلاب“ میں فروغؔ نے دعائیہ انداز میں یہاں کی فضا، رنگ و روپ اور شادابی و خوب صورتی کی قصیدہ خوانی کی ہے۔ ”نیلاب“ اٹک کا سرحدی علاقہ ہے جہاں ایک طرف اٹک (پنجاب) اور دوسری طرف نظام پور (خیبر پختون خوا) ہے جسے دریائے سندھ جدا کرتا ہے۔

باغ نیلاب مقام پیارا

اٹک نی دھرتی توں اُرار اے

ساوی جُوہ نظام پورے نی

آمن سامن پرلے پار اے

اِدھر پہاڑ نا مُڈھ سہانا

اُدھر بھی دھرتی اُتے بہار اے

کالا چٹا بانکا پربت

وادیاں کیتا روپ سنگھار اے

یا اے دھرتی آپے سوہنی

یا وَت سوہنا مینڈا پیار اے

                                                اسی طرح  نظم ”ہک وسنی مینڈے وطنے نی“ میں فروغؔ کی محبت اور موانست کا عجیب ہی انداز ہے۔ اپنے گاؤں کے ہر موسم دریا، ندی، ہر گل بوٹے اور انسانوں سے ان کا پیار دیدنی اور قابل فہم ہے۔ قطعہ کی ہیئت میں لکھی یہ نظم روانی اور موسیقیت کی عمدہ مثال ہے۔

کیہا چیتر اوتھے نیارا وے 

پُھل بُوٹیاں نال سنگھارا وے

کیہا ساون سبز سہانا وے

اسّا کتا بھی اُس نا پیارا وے

٭٭٭

٭٭٭

جد سرہیوں جوان ہو جُلنی اے

کیہے حسن بسنتی چ پُھلنی اے

کیہی مہک خوید نی آنی اے

وا چیتر نی جد جُھلنی اے

٭٭٭

فروغؔ کدے ترہایا رہوے اے اُس نا اپنا آہلُس اے

اس نے جُوہ وچ سِنھ، ہرو تے نندنا، سیل، سواں تاں اَیہ

                                                فروغ ؔکی نظم ”گل داؤدی“ علامتی رنگ کی حامل ہے۔ شاعر نے اگرچہ تمام پھولوں کی خوب صورتی اور دل کشی کا اعتراف کیا ہے مگر صرف اپنے من بھاتے پھول گل داؤدی کو خراج پیش کیا ہے کہ یہ پھول ہر موسم میں کھلتا ہے اور زمانے کے گرم و سرد کا بھر پور مقابلہ کرتا ہے۔ پروفیسر فروغؔ کی ذاتی زندگی بھی گلِ داؤدی سے مماثل ہے۔ جو وہ ہر قسم کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے گزار رہے ہیں۔

چیتر وچ تاں سب کھِڑے وُن

مگھر پوہ کوئی کِھڑے تاں منّاں

اس نے واسے سختیاں سہہ کے

سردی نال بھِڑے تاں منّاں

عجب کمال اے عین خزاں وچ

داؤدی نی صورت کھِڑنا

لوڑ ونداں نی لوڑاں خاطر

کھِڑنا وقت ضرورت کھِڑنا

                                                اسی طرح نظم ”بنّھی نا کیرا“ (تالاب کا کنارہ) میں گھڑے اٹھائے پانی بھرنے والی ناریوں کے حسن و جمال، تالاب کی آبادی اور رونق کی دل کش منظر کشی کی ہے کہ ایک ایک شعر دل میں پیوست ہو جاتا ہے اور پوری تصویر اپنی حرکات و سکنات کے ساتھ آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ ”اٹک میلے نی رات“ نظم میں فروغ ؔنے ایک ولی اللہ المعروف ”حضرت جی بابا سرکار“ (جو قریب تین صدی قبل گزرے، کی یاد میں سالانہ میلہ/عرس جو دریائے سندھ (سِنھ) اٹک کے مقام پر منعقد ہوتا ہے اور مختلف علاقوں سے زائرین/عقیدت مند شریک ہوتے ہیں) کے میلے میں شرکا کی آمد اور مختلف اشغال کے مشاہدات کو احساساتی،جذباتی اور عقیدت کی سطح پر قلم بند کیا ہے۔ شاعر محمد عظیم بھٹی نے غلام ربانی فروغؔ کی شاعری کے متعلق تاثرات کا درج ذیل اظہار کیا ہے۔

                                                ”اوہناں فطرت دے رنگا رنگ نظاریاں نوں بڑے نیڑیوں ہو کے ویکھیا ہے۔ اوہ آپ آکھدے نیں۔

میں جوگی جنگل جُوہاں نا

سیلانی کھیتر کھُوہاں نا

                                                اونہاں نظاریاں نوں ویکھن ویلے اوہناں اُتے جیہڑی کیفیت واپری اوس نوں بیان کرن لگیاں اونہاں آپنے علاقے دی بولی نوں ورتنا ضروری سمجھیا“۔ (مشمولہ مجموعہ ”وسنا رہوے گِراں“ ص13)

                                                نظم ”پھولاں رانی“ میں فروغؔ نے استعاراتی پیرائے میں محرومی کے کرب کا اظہار کیا ہے۔ غزل کی ہیئت میں لکھی یہ نظم تاثیر سے معمور ہے۔

رُت بہار نی پھولاں رانی

خبر نئیں کتھے وسنی اے

اَساں تاں سال چہ ہکّا واری

صورت اپنی دسنی اے

سبز پُشاکاں والی رانی

پُھلاں نا ہاسا ہسنی اے

                                                اسی طرح ”ہک دو میل“ (اٹک خورد)، ”اٹک خورد“، ”نانکا گراں“ اور ”ڈھوک ہک مینڈے سنگیئے نی“ وغیرہ نظمیں بھی مقامیت کے رنگ ڈھنگ، جزیات و عناصر اور مقامی لفظیات پر مشتمل ہیں۔

                                                یہ تمام نظمیں شاعر کے گہرے مشاہدے اورحساس شعوری قوت کا بہترین اظہار ہیں۔ یہ نظمیں محبت اور احساس کے جذبات پر مبنی ہیں جو من بھائے اور من چاہے رشتوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور جن کی چاہت اور طلب انسان کو ہر وقت سرشار رکھتی ہے۔ نظم ”گوندل منڈی“ میں فروغؔ نے بدلتے انسانی رویوں اور قول و فعل کے تضاد کو موضوع بنایا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہر انسان کو زندگی میں ”گوندل منڈی“ سے ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ ”گوندل منڈی“ یہاں ایک علامت بن کر ابھرتی ہے اگرچہ یہ اٹک سے چند میل دور ایک علاقہ ہے جہاں ہفتہ وار مویشی منڈی لگتی ہے۔

ٹُر پھر کے اس منڈی اُتے

رنگ چالا منڈی نا ویکھا

کرن زباناں والے ایتھے

بے زبانے مال نا سودا

میں دنیا وچ نظر دوڑائی

ہر جاگھاں اِک گوندل منڈی

ٹھگ دلالاں ہتھ ترکڑی

من مرضی نی مارن ڈنڈی

مال وکاؤ بے زبانہ

کویں کرے فریاد تے بھَنڈی 

’ہک نظم“ غلام ربانی فروغ کی شہکار نظم ہے۔ اس کی لَے اور انداز مرثیے کا ہے۔ بحر متوسط اور ہیئت مخمس کی ہے۔ شاعر نے ماضی تا حال، ہر سطح پر رنگ بدلتی دنیا کی صورت حالات کا بیان نہایت پُر درد اور پُر تاثیر انداز میں کیا ہے۔ بالخصوص موقع محل کے تناظر میں پروفیسر فروغؔ کو الفاظ کے انتخاب کا ملکہ حاصل ہے۔ اسلوبی حوالے سے نظم کی الگ ہی شان ہے۔ شاعر نے ذاتی محسوسات و مشاہدات کو بامعنی صنائع میں پیش کیا ہے۔ داخلی قوافی سے جہاں نظم میں زور اور فعالی پہلو ابھرا ہے وہیں نظم کے بہاؤ، روانی اور موسیقیت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ نظم کا اختتامی حصہ پوری نظم کی جان ہے جہاں شاعر خود کو اس نئے، بدلے ماحول میں بالکل اجنبی اور غم زدہ محسوس کررہا ہے وہ وجود کے ادراک اور شناخت کے متمنی ہیں مگر اب سب کچھ بدل چکا ہے۔

نال اینہاں نویاں کھب ساراں

کِنج بے جوڑ اُڈاری ماراں

ہان نیاں اُڈ گئیاں ڈاراں

کیہڑے سنگ نی سنگت رَلاں

کیہڑی مجلس بہواں، کھلاں

کِتھے گیاں نوں سنیہوڑے گھلاں

اِک وراگ نے وچ پیا بلاں

سینہ َسلیا، دُکھ نیاں سَلاں

                                                نظم ”چینجک“ آپ بیتی کے رنگ میں ہے۔ پروفیسر فروغؔ نے لڑکیوں کے اس دیہاتی روایتی کھیل کے پردے میں وقت کی شکست و ریخت کا المیہ بیان کیا ہے۔ مٹی گوندھنے سے لے کر گھڑے کی تخلیق، اس کی قدرواہمیت اور پھر ٹوٹ پھوٹ کے بعد ناقدری تک کا احوال دراصل ایک انسانی دکھ ہے۔ مثنوی کی ہیئت والی اس پوری نظم پر اداسی کی فضا طاری نظر آتی ہے۔

کر کر کے مینڈی رگڑائی

شکل روپے وانگ بنائی

ناں مینڈا تُدھ چینجک پایا

تُھڈیاں والی کھیڈ بنایا

تُھڈا مار کے اُدھر وگایا

اُدھروں مار کے اِدھر نسایا

کیہہ پئی سوچیں گڈو رانی

ایہہ تینڈی چینجک نی اے گھانی

                                                اسی طرح ”بابا پنشنی“ نظم کا مزاج اور انداز مجید امجد کی نظم ”بس اسٹینڈ پر“ جیسا ہے۔ تمام پنشنی بوڑھے بابے اپنا اپنا نمبر لے کر پنشن ملنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ مکالمے کے انداز میں ہر کوئی اپنے ماضی کے کارنامے بتاتا ہے اور آخر میں اپنی وسیع خدمات کے عوض برائے نام پنشن لے کے اس کے دل کی کلی مرجھا جاتی ہے۔ مثنوی کی ہیئت میں لکھی اس نظم کا موضوع ایک چونکا دینے والا المیہ ہے۔

                                                ”ہاڑ تے ساون“ نظم میں نہایت موزوں الفاظ اور دلچسپ انداز میں موسمی تبدیلی کے انسانی زندگی پر اثرات کو موضوع بنایا ہے۔  ضائع لفظی و معنوی کے بر محل استعمال سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ علاوہ ازیں ”اپنا گِراں“، ”عید دہاڑے“، ”مشین نے بچے“، ”شریکا“ اور ”ماں پتر“ نظموں کا داخلی نکتہ محبت، احساس اور دلی جذبات کا بیان ہے۔ جس طرح پردیس میں رہتے ہوئے دیس اور دیس کی ہر چیز یاد آتی اور رلاتی ہے اسی طرح ماں کی مامتا اور دھرتی ماں کی محبت بھی انسان کو بے چین اور اداس رکھتی ہے۔ بالخصوص نظم ”ماں پتر“ کا موضوع دھرتی ماں کی محبت اور حب الوطنی کا جذبہ ہے۔ مثنوی کی ہیئت میں لکھی یہ نظم تین طویل مکالموں پر مشتمل ہے۔ بیٹے کا ماں سے، ماں کا بیٹے سے اور پھر بیٹے کا ماں سے مکالمہ ہے۔

بیٹا  :                     

اَج مَیں کراں سوال ایہہ تُدھ تے دَس نی مینڈئیے دھرتی مائے

تینڈے لیئق ہنر مند پُتر کیوں ٹر وینے دیس پرائے

دھرتی ماں:                               

مینڈی چنگیر چ سُکیاں راڑیاں، اوہ چاہون تھالی چوری نی

سوچ انہاں نوں کجھ نہ آوے مَیں مجبور نی مجبوری نی

مگر بیٹے کی کمٹ منٹ اپنی دھرتی ماں کے ساتھ ہے چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ اسے چھوڑ کر نہیں جانے والا۔

بیٹا:                       

مَیں تاں اپنے دم نی چائی اے تینڈے کول ہی رہنا مائے

 ماں پتراں ناں دُکھ سکھ ساجھا رَل مِل نالے سہنا مائے

”مال پرایا“ نظم کا موضوع اخلاقی ہے جس میں عمل صالح کی تلقین اور حرام کی مذمت کی گئی ہے۔

غلام ربانی فروغؔ نے اپنے کسی بہت ہی عزیز اور ہمدرد کی سرطان سے وفات پر استعار اتی پیرائے میں ایک مرثیہ نظم ”ہک ہکّلا بُوٹا“ کے عنوان سے لکھی ہے جو نہایت پُر تاثیر لفظوں کا روپ دھارے ہے۔ نظم کی احساساتی سطح بہت بلند ہے۔

ہرا بھرا اوہ پیارا بوٹا امربیل مُکا گئی اوڑک

اوہ اکلوتا رُکھ رڑے نا موت ہنیری ڈھاگئی اوڑک

                                                ”وسنا رہوے گِراں“ میں چند چار مصرعوں والے ”چوبرگے“ اور دو مصرعوں والے ”دو برگے“ نام سے متفرق اشعار میں پروفیسر فروغؔ نے زندگی کے حقائق، اہل دنیا کی موقع پرستی، نیکی و شرافت چلنی اور حب الوطنی کے جذبات کو موضوع بنایا ہے۔ اپنی زندگی کا ایک اہم عرصہ چوں کہ انھوں نے پاکستان ائیر فورس میں بطور ائیر مین گزارا ہے اس لیے دھرتی ماں سے موانست اور وطن کی عزت و تحفظ اور دفاع کے لیے کٹ مرنے کے جذبات اور عزائم نہایت فطری معلوم ہوتے ہیں۔

اَسی کوڈی نے کھڈیار بھی آں، اَسی نیزہ باز سوار بھی آں

رب پاک قلم بھی بخشی اے، ہتھ رکھنے اَسی تلوار بھی آں

اَسی گاوناں وچ صفتینے آں، اَسی ڈھول سپاہی سدینے آں

تاریخ گواہی دینی اے، اَسی دیس نے جان نثار بھی آں

                                                غلام ربانی فروغؔ کے متذکرہ مجموعے میں تیس پنجابی غزلیات بھی موجود ہیں۔ ان میں چند چھوٹی بحر جب کہ زیادہ غزلیں متوسط بحر میں لکھی گئی ہیں۔ نظم کے برعکس غزل زیادہ لطیف اور اختصار پسند صنف سخن ہے۔ رمزو ایما اس کی اہم صفت ہے۔ غزل کے دو مصرعوں میں شاعر ذات سے لے کر کائنات تک کے تفکرات و محسوسات اور تجربات و مشاہدات کو ان کے جملہ زاویوں سمیت سمیٹ لینے کی سعی کرتا ہے۔

                                                غلام ربانی فروغؔ کی غزلیات کا ماحول اور فضا نظموں کی مقامی فضا اور ماحول سے قدرے مختلف اور بلند ہے۔ ان غزلیات کے مجموعی مطالعے سے جو فکری پہلو عیاں ہوتے ہیں ان میں صبروشکر، قناعت و رضا اور بے ثباتیِ عالم جیسے روایتی موضوعات کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد کے نمایاں ادبی موضوعات، تلخ سماجی و معاشرتی حقائق، اقتصادی ناہمواری کی کٹھنائیاں، انسانی ناقدری،فرد کی شناخت کا مسئلہ اور وطنی و ارضی محبت کے حوالے شامل ہیں۔

لکھنا رہنا واں سِر وَرتی

پڑھنا رہنا واں جگ بیتی

                                                غلام ربانی فروغؔ کا تعلق اٹک کے پس ماندہ اور دور افتادہ علاقے سے ہے۔ دیہات کے سادہ، خالص اور ہمدردانہ ماحول میں ان کی جم پل ہوئی۔ دیہات کے لوگ فطرتاً کھرے اور سیدھے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کے کلام اور طرز عمل دونوں میں سادگی، خلوص انسانی تعظیم اور محبت و احساس کے بے لوث جذبات کی فراوانی ملتی ہے۔ وہ دولت دنیا یا جاہ و منصب کے طالب نہیں بلکہ محض پیار کے دو بولوں پر بِک جانے والے انسان ہیں۔

بولیے نال حلیمی سجنا

لگے نہ گل اَڑُگّی چنگی

٭                                   

کالک رنگیاں کوہجھیاں گلاں دُور دراڈے دھکنا واں

چن مُکھیاں نور نہاتیاں نوں چھک پیار نی پا کے چھکنا واں

بوٹے سر بملُچّھی نا ایہہ ساوا شملہ کیہڑے کم ناں

جس نے نال ہلاریاں والی پینگھ پوے اوہ ٹاہن بناں

                                                چوں کہ اچھے لوگوں کے وجود سے ہی نظام دنیا قائم ہے۔ اس لیے فروغ مایوس نہیں ہوتے بلکہ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ کے مصداق انہوں نے ہمیشہ اپنی مثبت سوچ کا پرچار کیا ہے۔

جیہجی کیہجی بھی اے دنیا ہکی گلوں چنگی لگنی

ہلّا بھی اس وچ کیں کیں جاگھاں وسنے پئے وُن پیارے لوگ

٭

میں اپنی ذات نے سفر اندر ہک ایہجا مُلکھ بھی ویکھا وے

جتھے موسم سب سجیلے وُن، جِتھے رُتاں سب سہانیاں وُن

                                                غلام ربانی فروغؔ مزاج اور تربیت کے لحاظ سے اخلاص کے پیکر، محبتی اور مجلسی انسان ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ اہل زمانہ کی مکاریوں، خود غرضیوں اور منافقانہ رویوں سے بے خبر ہیں انہوں نے اپنے اشعار میں ایسے حیلہ بازوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے جن کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی اور کرداری لحاظ سے نہ صرف برباد ہوا بلکہ اعلیٰ اقدار و روایات کا خون ہوا اور مفاد پرستی، موقع پرستی اور نفرت و انتشار کو راہ ملی۔

مُک گئی ریت پریتاں والی اوہ گلاں ہُن نظر نہ آوُن

ایہہ سر ننگے لوک اَج کل نے کیہ کسے نا پگ وٹاوُن

٭

سَپ نے ڈنگیاں لوکاں واسے منتر بھی تریاق بھی ہے وے

ہم جنساں نی زہر نا کیہڑا چارہ کرن وچارے لوک

                                                درحقیقت یہ خود غرضانہ، مفاد پرستانہ اور موقع پرستانہ ماحول سرمایہ دارانہ سوچ کا عطا کردہ ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ سودی نظام کے بھیانک نتائج ہیں نیز معاشرے میں ہر قسم کی معاشی، سماجی اور عملی تفریق و تقسیم سب اسی مکروہ سرمایہ دارانہ سوچ کی دین ہیں۔ معاشرے میں تمام عدم مطابقت اسی قبیح رویے کا نتیجہ ہے۔ اس نظام نے چند لوگوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اکثریت کا خون نچوڑ کر انہیں بالکل بے بس، مجبور، محروم اور زندہ درگور کر دیا ہے۔ غلام ربانی فروغ جب اپنے ارد گرد یہ صورت حال دیکھتے ہیں تو ان کا جی کَھول اٹھتا ہے۔ اگرچہ وہ خود بھی اس نظام کی بربادی کا شکار ہیں مگر اپنے بھائی بندوں کے لیے ان کا دل زیادہ جلتا ہے جن کی محنتوں اور مشقتوں کا برابر استحصال کیا جا رہا ہے۔

شوہکاراں نے گروی پے گئے نک نموش نے مارے لوک

بن قرضوئی ککھاں تو بھی لوہکے ہو گئے بھارے لوک

دیس اَمبڑی نے کجھ پتر تاں بھُکے پیٹ مشقت کَرن

بہ کے چنگا چوکھا کھاون کجھ مشٹنڈے تے مُجھرَنّے

٭

شالا اوہ سمندر سُک کے تتی ریت نا تھل ہو ونجے

جتھے وڈیاں وڈیاں مچھیاں، نِکیاں مچھیاں کھا کھا جیون

                                                غلام ربانی فروغؔ نے غزلیات کے اکثر اشعار میں کہیں صاف واضح اور کہیں استعاراتی و علامتی پیرائے میں سرمایہ دارانہ اور غیر مساویانہ نظام کے حیلوں اور ہتھکنڈوں کو اجاگر کیا جن سے ملکی وسائل کی لوٹ مار، محنت کشوں کا استحصال اور قومی خزانے کی بندر بانٹ کی راہ ہموار کی گئی۔ انہیں اس بات کا شدید دکھ اور تکلیف ہے کہ یہ ظالم اور موقع پرست قوتیں نہ صرف وطن عزیز کو کمزور اور کنگال کر رہی ہیں بلکہ ایسے ناپاک اور مذموم رواج کی بِنا ڈال رہی ہیں جو عنقریب دھرتی ماں کو مفلوج اور بانجھ کر کے رکھ دے گا۔ ایک محبِ وطن شاعر اور پاکستان ائیر فورس کے سپاہی کی حیثیت سے ان کی تشویش برحق اور پریشانی قابلِ فہم ہے۔

تول بھی کَسے ڈنڈی بھی مارن نالے کھاوَن سود نی کھٹی

وت بھی قسماں چا چا آکھن سچ وکینا اساں نی ہٹی

میوے بے شک کھوہ کھوہ کھانے، جھولیاں بھر بھر کے لے جانے

بُوٹے ای مڈھوں پٹ پٹ ظالماں کر دِتی کیہہ چوڑ چپٹّی

باہروں چور نئیں کوئی آیا تاڑ کے اَساں نے بوہے چنے

اپنے گِرائیں نیاں کجھ کَپُتراں سنھاں لائیاں جندرے بھنے

                                                غلام ربانی فروغ ؔکی شاعری میں ایک بات قابل غور ہے کہ ان کے ہاں نظم و غزل کا ایک خاص روایتی عنصر محبوب کے لب و رخسار، ہجرو فراق، زلفوں اور اداؤں کا بیان قریب قریب بالکل مفقود ہے۔ البتہ مقامی حوالوں اور قدرتی مظاہر میں انہیں بہت حسن نظر آیا جسے دلچسپی سے بیان کیا ہے۔ اگرچہ پنجابی زبان میں رومانوی قصوں کی روایت بہت قدیم ہے مگر فروغ کے ہاں ان کا بیان بھی بالکل نہیں ملتا۔

                                                غلام ربانی فروغؔ کی نظم و غزل فنی و اسلوبی عناصر سے مالا مال ہے بالخصوص ان کا تمثالی انداز ہر جگہ نمایاں ہے۔ انہوں نے زیادہ تر تمثالیں مقامی اور فطری ماحول سے لی ہیں ان کے ہاں یہ مظاہر فطرت متحرک نظر آتے ہیں جس سے شعریّت اور دل کشی دوبالا ہو گئی ہے۔

                                                فروغ کی مادری زبان مقامی پنجابی ہے چونکہ وہ تعلیم یافتہ آدمی ہیں اس لیے انہوں نے پنجابی اشعار میں کہیں کہیں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ البم، فوٹو، کیمرہ، پنشن، بک، کرنل، رجمنٹ، بوٹ، نوٹ، یونین جیک وغیرہ کے استعمال سے اشعار میں غرابت کا بالکل احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح روز مرّہ، ضرب الامثال اور تکرار لفظی کی عمدہ مثالیں بھی ان کے اشعار میں موجود ہیں۔ فروغ نے چند ایک نئی تراکیب بھی وضع کی ہیں جو پنجابی شاعری میں یقینا اچھا اضافہ ہیں مثال کے طور پر ”ٹھنڈی چھاں دی ساڑ”اور ”مٹھے پھل دی کوڑ“ نئی تراکیب ہیں۔ ان کے اشعار میں کہیں خطابیہ انداز بھی نمایاں ہوا ہے مگر وہاں پر جہاں وہ کسی کو کچھ بتانا، خبردار کرنا یا نصیحت کرنا چاہتے ہیں۔

                                                غلام ربانی فروغؔ فنِ شاعری کے جملہ عناصر سے بالکل آشنا ہیں اسی لیے ان کی نظم و غزل دونوں میں صنائع لفظی و معنوی کا برمحل اور خوب صورت استعمال جا بجا ملتا ہے۔ ذیل میں علم بیان اور ضائع لفظی اور معنوی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔  مزید برآں فروغ ؔنے جو امیجز اور تصویری پیکر ابھارے ہیں ان سے بھی کلام کے حسن اور دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔

تشبیہات:

عمر ترٹّھی ہرنی وانگن

ویکھو سنگیو! کیہجوں نسّے

توں نال ہوویں تاں سنگ تینڈا آباد ورانے کر دینا

تدھ بعد بھری نگری وچ بھی گستانے وانگ ورانی اے

استعارات:

بے مہری ویکھ مسافراں نی ہک بڈھی سراں دکھ نال آکھے

وَت مڑ کے پھیرا نئیں پانے ہک وار جو آکے ٹر گئے وُن

٭٭٭

طوطے بھیڑے آکے جس نیاں کچیاں ِللّھاں ٹک ٹک سٹ گئے

اُس بدقسمت بیری پلے دِسنا نہ کوئی رَتا بیر اے

تمثالیں:

میں پیا ویکھاں آج مَیرے تے پوہلی اپنے کنڈے کھلارے

مینڈے کولوں لنگھنا ولوُہنا پھیرنیاں لڈی نیاں مارے

٭٭٭

ہک چوئے تے بیٹھا ویکھ ریہاں ماکھو نیاں مکھیاں نے پھیرے

بہوں دوروں پانی بھرنے نوں اے سگھڑ سوانیاں آنیاں وُن

صنعتِ تضاد:

ہکنا گیت ملن نا سمجھا، ہکنا وین وچھوڑے نا

ڈولی چانیاں شور جے پایا، رَل مِل واجیاں تے شُرنائیاں

٭٭٭

کُجھ مِٹھے پھل توں کوڑ چڑھی، کُجھ ٹھنڈی چھاں تو ساڑ آئی

ویری نی کُہاڑی نیاں سٹاں بوٹے نیاں جڑاں ٹک گئیاں

لف و نشر:

توری نیاں بانکیاں ولاں بھی کیں دولت مند نیاں دھیان وُن

کیہا ساوا پٹ ہڈانیاں وُن کیہا پیلا سونا پانیاں وُن

٭٭٭

اکھیاں وچ کالے بدل ہَن، سینے  وچ                                                  بھاء دے بھانبڑ ہَن

میں ساون وانگن وسنا واں، میں ہاڑھے وانگن تپنا واں

رعایت لفظی:

کنک شہزادی دھی پٹی نی اُس نی جھولی جمی پَلی

وڈی ہو کے پے گئی ڈولی، پٹی رہ گئی ہِک ہکّلی

ڈونگھیاں اس بوٹے نیاں جڑاں لمے ڈال تے گھنے پَتر

پنچھیاں واسے پینگھ پنگھوڑا دُھپ نے ماریاں نا چھاں چھَتر

                                                فروغؔ کی شاعرانہ پختگی اور اظہار کی قدرت کا اندازہ ان کے مشکل قوافی اور ردیفوں کے استعمال سے بھی ہوتا ہے۔ یہ ردیفیں زیادہ تر فعالی ہیں کہیں یہ ردیفیں خطابیہ انداز سے ہم آہنگ ہیں اور ان سے شاعرانہ لَے اور موسیقیت میں اضافہ ہوا ہے۔

                                                مختصر یہ کہ غلام ربانی فروغؔ کے مجموعے ”وسنا رہوے گِراں“ کی شاعری ادبیاتِ اٹک کے سرمائے میں ایک نئے اور نمایاں مقام کی حامل ہے۔ در حقیقت یہ مجموعہ ادبی فضا میں ہوا کے تازہ جھونکے کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ مجموعے کا نام، اس کے مندرجات، لفظیات اور مقامیت کے عناصر اور دل کش حوالے، سب کچھ نیا اور منفرد ہے۔

                                                غلام ربانی فروغؔ نے ”وسنا رہوے گِراں“ کے توسّل سے نہ صرف مقامی بولی ا ور لفظیات کو متروک ہونے سے تحفظ بخشا ہے بلکہ اس لفظیات سے جڑی تہذیب اور اقدار کی بقا اور سا  لمیت کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔

آؤ مینڈے ساد مرادے شعراں نی صورت بھی ویکھو

ہتھ مینڈے اپنے مَیرے نے خود روپھُلاں نی بھری چنگیر اے

                                                چنانچہ ضروری ہے کہ فروغؔ کی شاعری کو سراہا جائے اور اس کا موضوعاتی، لسانی ا ور فنی سطحوں پر تفصیلی تجزیہ کیا جائے تاکہ ادبیات اٹک کے ساتھ ساتھ پنجابی ادب کی تاریخ میں بھی غلام ربانی فروغ کے ادبی مقام و مرتبے کا درست تعین کیا جا سکے۔ خود بھی فروغ نے ایک شعر میں اس تمنا کا اظہار کیا ہے۔

بھانویں مَیں اس لیئق نئیں آں، دل نی سَدھر دعا منگنی اے

رب کریم بناوے اپنی ماں بولی نا مان بناں

بے شک اٹک تخلیقی لحاظ سے نہایت فعال ا ور زرخیز خطہ رہا ہے مگر بڑے ادبی مراکز سے دوری کے سبب یہاں کے شعراء و ادبا کو وہ ترقی اور نام نہیں مل پایا (ماسوا چند تخلیق کاروں کے جو اٹک سے بڑے شہروں میں جا آباد ہوئے) جس کے وہ حق دار تھے اور بالآخر کتنے ہیرے اپنی تابناکی سے قبل ہی مٹی کی آغوش میں جا سوئے۔ اس لیے بھی ناقدین ادب سے استدعا ہے کہ فروغ کی شاعری کا تنقیدی انداز سے جائزہ لیا جائے۔ ادبی معیارات کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ ابھی وہ حیات ہیں تو ان کی زندگی ہی میں ان کی قدر دانی کی جائے۔ ان کی حوصلہ افزائی اور اطمینان قلب کے لیے بھی یہ ضروری ہے اور یہ ایک ادبی تقاضا بھی ہے۔

                                                غلام ربانی فروغ ؔکے پنجابی مجموعے ”وسنا رہوے گراں“کی شعریات کی فکری و فنی سے کہیں زیادہ لسانی اہمیت واضح ہے۔انہوں نے ٹھیٹھ مقامی لفظیات سے نہ صرف نئی نسل کو متعارف کرایا اور اسے متروک ہونے سے بچایا بلکہ نہایت خوبصورتی سے برت کر اسے محفوظ کرنے کا بہت بڑا کام کیا ہے جسے سراہا جانا از حد ضروری ہے۔ ۔

Azhar

پروفیسر اظہر محمود

شعبہ اردو

گورنمنٹ پوسٹ گریجوئیٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

تاریخِ اسلام میں روزِ مباہلہ کی اہمیت

بدھ اگست 4 , 2021
قُرآن مجید میں یہ لفظ لعن و نفرین اور بد دعا کے لیے استعمال ہوا ہے یعنی حق و باطل کی تشخیص کی خاطر ایک دوسرے کی ہلاکت کے لیے بد دعا کرنا۔
تاریخِ اسلام میں روزِ مباہلہ کی اہمیت

مزید دلچسپ تحریریں