تاریخِ اسلام میں روزِ مباہلہ کی اہمیت

مباہلہ ایک قُرآنی اصطلاح ہے اور قُرآن مجید میں یہ لفظ لعن و نفرین اور بد دعا کے لیے استعمال ہوا ہے یعنی حق و باطل کی تشخیص کی خاطر ایک دوسرے کی ہلاکت کے لیے بد دعا کرنا۔

نجران یمن کے شمالی پہاڑی سلسلے میں واقع ایک خُوبصُورت اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے اس علاقے میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جو کہ مالی لحاظ سے بہت دولتمند اور خُوش حال بھی تھے۔

فتح مکہ کے بعد اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ارد گرد کے تمام سرداروں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے کہ یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر جزیہ ادا کریں، آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا یہ پیغام نجران کے عیسائی سردار کے پاس پہنچا تو اس نے نجران کے بزرگ پادریوں کو بلایا اور حضور صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا وہ سبھی اس خط کو پڑھ کر سخت مشتعل ہوئے مگر انہوں نے جنگ سے بچنے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے مذاکرات کا مشورہ دیا، چنانچہ 14 بزرگ پادریوں پر مشتمل ایک قافلہ مدینہ منورہ روانہ کیا گیا جب یہ لوگ مدینہ منورہ پہنچے اور مسجد نبوی میں ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو رحمتِ عالَم صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی طرف سے مُنہ پھیر لیا کیونکہ اُن کے لباس زرق برق اور فاخرہ تھے، اور وہ لوگ مسجد سے باہر نکل آئے، حضرت علی علیہ السلام نے اُن کو ملاقات نہ کرنے کی وجہ بتائی کہ آپ کے فاخرہ لباس سے غرور و تکبر اور ذہنی برتری کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور عام سادہ لباس پہن کر آنے کا مشورہ دیا، چنانچہ وہ لوگ سادہ لباس پہن کر آئے اور آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم سے کافی تفصیلی مذاکرات بحث مباحثہ اور سوال و جواب ہوئے، حضرت رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو لاکھ سمجھایا دلائل دیئے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام خُدا کے بیٹے نہیں حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی مگر عیسائی نہ مانے بحث لمبی ہو رہی تھی اور عیسائی نہ اسلام قبول کرنے پر آمادہ تھے اور نہ جزیہ دینے کو تیار تھے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 61 کا نزول ہوا ،

بِسْمِ اللهِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِيْمِ * فَمَنْ حَأجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جأءَكَ مِنَ الْعِلْمِ قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَأءَنَا وَ اَبْنَأءَكُمْ وَ نِسَأءَنَا وَ نِسَأءَكُمْ ثُمَّ نَتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللهِ عَلیَ الکَاذِبِینَ **

آل عمران 61

پھر اے میرے حبیب! آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد جو آپ سے (حضرت عیسٰیؑ) کے بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اُن سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم اپنی بیٹوں کو لاتے ہیں تم اپنی بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو، تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے نفسوں کو تم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجتے ہیں۔

Mubahila

عیسائی پادریوں نے یہ بات قبول کر لی، مقام اور جگہ کا تعین ہو گیا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کو 24 ذوالحجہ 10 ہجری کی نمازِ فجر کے بعد ایک سرخ قالین اور چار لکڑیاں دے کر مقررہ میدان میں بھیجا، اور ایک سائبان کھڑا کرنے کا حکم دیا، اہلِ اسلام کے تمام بڑے اور نامی مفسرین سمیت علامہ زمخشریؒ، علامہ فخرالدین رازیؒ، علامہ جلال الدین سیوطی ؒنے تفسیر در منثور میں اور علامہ بیضاوی ؒنے جلاؤالعیون میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے گھر سے باہر نکلے کہ امام حسین علیہ السلام کو بغل میں اُٹھائے اور امام حسن علیہ السلام کو انگلی سے پکڑے ہوئے تھے جنابِ سیّدہ فاطمۃُ الزَّہرا سلام اللہِ علیہا آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے اور اور اُن کے پیچھے حضرت علی علیہ السلام تھے اور یہاں پر آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث بیان فرمائی صحیح بخاری سمیت دیگر حدیث کی کتب میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ

اے اللہ جس طرح ہر نبی کے اہلبیت ہوتے ہیں یہ میرے اہلبیت ہیں، تو انہیں ہر بُرائی اور نجاست سے دور رکھ اور پاک و پاکیزہ فرما  

جب آپ صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم اس شان سے میدانِ مباہلہ میں پہنچے کہ زمین و آسمان ان ہستیوں کے نور سے روشن تھے تو نصاریٰ کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی عیسائی راہبوں کے سردار جس کا نام تاریخ نے عافث لکھا ہے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر مخاطب ہوا۔

واللہ  !  میں ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ اس پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا حکم دیں تو یقیناً ہٹ جائے گا، عافیت اسی میں ہے کہ مباہلہ سے ہاتھ اُٹھا لو ورنہ قیامت تک نسلِ نصاریٰ کا خاتمہ ہو جائے گا

اور یوں نجران کے نصاریٰ نے جزیہ دینا قبول کر لیا جلاء العیون میں علامہ بیضاوی ؒ لکھتے ہیں کہ جنابِ رسولِ خُدا صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

یہ لوگ اگر مباہلہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کی شکلیں مسخ اور بگاڑ دیتا یہ میدان آگ بن جاتا اور نجران میں زندگی ختم ہو جاتی

24 ذی الحجہ 9 ہجری کا یہ دن اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت سے اس کے رسول صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عظیم فتح نصیب ہوئی تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مذہب و مسلک اس دن کو عید کے طور پر منانا چاہیے اور اسلامی احکامات پر عمل کر کے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نُصرت ہمیں بھی حاصل ہو۔

monis raza

سیّد مونس رضا

معلم، مدبر، مصنف

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

پلیٹ کتنی بھرنی ہے

بدھ اگست 4 , 2021
صحیح سمت کا تعین نا ہو تو یوں لگتا ہے جیسے ایک اندھیرے کمرے میں کالی بلی کو ڈھونڈ رہے ہوں جس کی آواز تو سنائی دیتی ہے مگر ہاتھ نہیں آتی
پلیٹ کتنی بھرنی ہے

مزید دلچسپ تحریریں