“موم کا پتھر” کیمبل پور کے معروف شاعر، ادیب و افسانہ نگار احسان بن مجید کا افسانوی مجموعہ ہے۔کیمبل پور میں سن ساٹھ کی دہائی میں جن لوگوں نے افسانہ نگاری میں نام پیدا کیا اُن میں پروفیسر وقار بن الہی اور رخسانہ صولت کے ساتھ احسان بن مجید بھی تھے۔144صفحات پر مشتمل اس مجموعے کو جمالیات پبلی کیشن اٹک نے شائع کیا ہے۔ مصنف نے انتساب اول “اپنے مرحوم ابا جی کے نام کیا ہے جنکی خواہش تھی کہ وہ افسانہ لکھیں”جبکہ انتساب دوئم “اپنی شریک حیات اور بیٹی آمنہ غفاری کے نام کیا جو اُن کے بقول اِس سفر میں اُنکے سنگ رہیں”۔
افسانہ عصر حاضر میں رُونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتے ہیں۔افسانہ عموماً مختصر ہوتا ہے جس میں پوری زندگی کا نچوڑ پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے کسی ایک حصے اور کردار کو بیان کیا جاتا ہے۔ٹھیک اسی طرح احسان بن مجید نے بھی مختلف کرداروں کی زندگی کے ایک رُخ کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے افسانے فن افسانہ کی کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں ۔ وہ ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیںجن کے قلم میں تجربات کے نچوڑ اور فن کی پختگی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے افسانے اصلاح سازی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔
کتاب ”موم کا پتھر” میں احسان بن مجید کے 16 عدد مطبوعہ افسانوں کو شامل اشاعت کیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاًادبی رسائل کی زینت بنتے رہے۔کتاب کے پیش لفظ میں “تھوڑی دیر میرے ساتھ” میں اپنے زمانہ طالب علمی اور شوق سفر کے بارے میں احسان بن مجید لکھتے ہیں کہ” 1964ءمیرا طالب علمی کا زمانہ تھا، اٹک اس وقت کیمبل پور تھا، یہی وہ دور تھا جب کیمبل پور میں ادبی محفلیں جمتی تھیں، باذوق سامعین ہوتے تھے جو پڑھنے والے کو ہمہ تن گوش سُنتے تھے لیکن مجھے اُس وقت اس سے کیا سروکار تھا کہ اس محفل میں کیا ہو رہا ہے۔میں تو اُس وقت شرارتی پارٹی میں شامل تھا جس کا کام محفل سے باہر آوازیں کسنا یا مہمانوں کی سائیکلوں یا کاروں کے ٹائروں سے ہوا نکالنا تھا. وہ کہتے ہیں کہ 1964ء میں میری پہلی کہانی “خوشی کے آنسو” روزنامہ جنگ کے بچوں کے ایڈیشن میں شائع ہوئی۔ پہلی کاوش تھی سو بہت خوش ہوا لیکن یہ خوشی وقت کی دُھول تلے دَب گئی اور 1965ءمیں میں نے میڑک کر لیا۔ گورنمنٹ کالج کیمبلپور میں انہیں اُردو کے حوالے سے ڈاکٹر سعد اللہ کلیم(مرحوم)، وقار بن الہی اور ماجد صدیقی جسے اساتذہ کی راہنمائی میسر آئی۔ سعد اللہ کلیم خود شاعر تھے اور غزل پڑھاتے تھے جبکہ وقار بن الہی برصغیر معیار کے افسانہ نگار تھے اور نثر پڑھاتے تھے۔ یہی و ہ دور تھا جس میں وہ افسانے کی طرف راغب ہوئے لیکن لکھنے کی نوبت نہ آئی۔ ایف ۔اے۔ کرنے کے بعد وہ غم روز گار میں پڑگئے۔
مارچ 1979 ءمیںاُن کا پہلا افسانہ “پت جھڑ” ایک نیم ادبی رسالے میں شائع ہوا لیکن اس افسانے کے شائع ہونے کے باوجود اُن کا لکھنے کا رُجحان نہ بن سکا اور وہ غم روزگار کے چکر میں ایک بار پھر دِیار غیر روانہ ہوگئے۔ایک عشرے کے بعد جب وطن لوٹے تو دُنیا ہی بدل چکی تھی۔پیار محبت اور یارانے حسد،نفسانفسی اور خودنمائی میں بدل چکے تھے۔ 1990ءمیں ایک کہانی “پتھر کی عورت ” لکھی جو ماہنامہ آداب عرض میں شائع ہوئی۔ اِسی دوران احسان بن مجید کو شاعری کا شو ق بھی چرایا اور فتح جنگ کے شاکر بیگ کو استاد تسلیم کیا لیکن شاعری کی باریکیوں کو نہ سمجھ سکے اور اصلاح تک ہی محدود رہے۔ تاہم شاعری اور افسانے سے گاہے بگاہے جڑے رہے ۔ ستر سے زائد افسانے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوئے ۔ اٹک کے افسانہ نگار اور شاعر دوستوں نے انہیں مائل کیا کہ افسانوی مجموعے کو ترتیب دیا جائے جسکے لیے یہاں تک تاویلیں دی گئیں کہ “مجموعہ افسانہ نگار کا شناختی کارڈ ہوتا ہے” اور یوں پہلا مجموعہ منصہ شہود پر آیا۔
معروف افسانہ نگارو استاد وقار بن الہی کتاب کے مقدمے میںلکھتے ہیں”جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ، احسان بن مجید کو افسانہ لکھتے ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری لیکن اس تھوڑی سے مدت میں بھی اس نے جو کہانیاں لکھی ہیں ، وہ قاری کو متوجہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ اسے مسائل کا شعور ہے، اِسے قوم کی مشکلات کا علم ہے اور وہ ان مشکلات سے نکلنے کی جدوجہد میں مصروف بھی نظر آتا ہے۔فرق اور مجبوری صرف اتنی ہے کہ وہ ایک دور دراز اور خاصے پس ماندہ علاقے (کیمبل پور) سے تعلق رکھتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اس شہر میں کالج 1923 ء میں قائم ہوا تھا اور مردان اور پشاور تک کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے یہاں داخلہ لیا کرتے تھے۔ علاقے کا ذکر اس لیے ضروری سمجھا گیاکہ دور دراز واقع شہروں کے لوگ قدرے زیادہ ہی اَنا پسند اور لیے دیئے رہتے ہیں۔(کم از کم یارانِ تیز گام ) کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔احسان افسانہ بنا سکتا ہے اور کسی بھی تحریر کو متاثر بنانے کے لیے بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ اس کی ڈکشن وقت کے عین مطابق ہو”۔
معروف افسانہ نگار محمد حمید شاہد ، احسان بن مجید کی کہانیوں کو ایک تاثر کے عنوان کے تحت رقم طراز کچھ اس طرح ہیں کہ “صاحب! (کرسی پر بیٹھی تنہائی ) اور (پٹڑی سے اُترے ہوئے) جیسے عنوانات کو دیکھ کر ایک گماں سا ہو چلا تھا کہ شاید احسان کی کہانیاں علامت میں بھی بات کرتی ہوں گی، مگر جب انہیں پڑھا تو جانا کہ محض علامت کی طرف لپکنا یا پھر لفظی بازی گری کو وتیرہ کرنا اور ماجرے سے کنی کاٹ کر نکل جانا اس کی تخلیقی سرشت میں نہیں ہے ۔ وہ رشتوں سے جڑے ہوئے کرداروں کو اُٹھاتا ہے، ان کی پوری زندگیوں کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ نئے زمانوںکی تیز آندھیوں کے بیچ انہیں لا کر آنکتا ہے اور اس کے اندر سے کہانی کا سانحہ برآمد کر لاتا ہے”۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ احسان بن مجید کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہے۔ وہ کہانی کو گھڑتے نہیں ہیں بلکہ تسبیح کے دانوں کی طرح معاشرتی ناہمواریوں اور درد کو پروتے ہیں تاکہ پڑھنے والا اس کرب اورنا انصافی کو نہ صرف محسوس کرے بلکہ اس کے خلاف مزاحمت اور علم بغاوت بلند کرے۔موم کا پتھر میں شامل افسانے اسی معیار کو لیے ہوئے صدائے حق بلند کر رہے ہیں۔دُعا گو ہوں کہ احسان بن مجید اسی جذبے اور صداقت کے ساتھ معاشرتی مسائل پر اپنی قلمی سعی جاری رکھیں۔ ان کی افسانوں کی دوسری کتاب”آنکھوں کے ساغر ” بھی اہل ادب سے داد وصول کر چکی ہے۔ آج کل غزل اور نعت کو بھی مشق سخن بنائے ہوئے ہیں اور جلد ہی انکے غزل اور نعت کے مجموعے بھی منصہ شہود پر ہونگے۔
شہزاد حسین بھٹی
ایم ایس سی ماس کیمونیکشن، ایل ایل بی
مصنف،صحافی و کالم نگار لاہور
سیکرٹری انفارمیشن، پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ,پنجاب،
سابق ایڈیٹر ہفت روزہ “سین “
مصنف “کمرہ نمبر 109” کالموں کا مجموعہ ممبرنیشنل پریس کلب اسلام آباد،ممبرانٹرنیشنل پاور آف جرنلسٹس(آئی، پی، او ، جے)، ممبر آل پاکستان جرنلسٹس کونسل(اے پی جے سی)، ممبر ایمنسٹی انٹرنیشنل (اے آئی)
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔