کیمبل پور سے اٹک تک – 13

تحریر:

سیدزادہ سخاوت بخاری

انجرہ ریلوے اسٹیشن پر بنی روائیتی منڈی میں داخلے کی بات ہورہی تھی ۔ ہم جیسے ہی دروازے کی طرف بڑھے ، دروازے کی اوٹ میں کھڑے چوکیدار نے ہم پہ رائفل تان کر کہا ، خبردار اندر مت آنا ، عجیب منظر  ، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ، بات کیا ہے ، ہمارے میزبان نے دریافت کیا ، کیا بات ہے ، یہ میرے مہمان ہیں ، انہیں اندر اپنی قیام گاہ لیکر جانا ہے ، جواب ملا ، یہ پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں اور چیف صاحب کا حکم ہے کہ انہیں اندر نہ جانے دیا جائے ۔ یہ منڈی دراصل چیف آف مکھڈ کی ملکیت تھی جو پیپلز پارٹی کے سخت مخالف تھے اور تراپ جاتے ہوئے جب ہم وہاں سے گزرے تو ہمارے کارکنوں نے منڈی کے سامنے زبردست نعرے بازی کی ، جس کی خبر چیف صاحب کو مل چکی تھی لھذا انہوں نے اپنے لوگوں کو پیغام بھجوایا کہ اگر یہ لوگ واپسی پر اس طرف آئیں تو انہیں منڈی میں داخلے کی اجازت نہ دی جائے ۔

منڈی کے سیکورٹی گارڈ کے درشت روئے پہ عاشق کلیم غصے میں آگئے اور اس سے الجھنے ہی لگے تھے کہ میں نے ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا تاکہ کوئی ناخوشگوار صورت حال نہ پیدا ہو جائے ۔  ہمارا میزبان بے چارہ ہکا بکا ہمارا منہ دیکھ رہا تھا کیونکہ اسے شرمندگی اٹھانا پڑی ۔ ذرا سے توقف کے بعد عاشق کلیم نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ، چلیں ریلوے اسٹیشن پر چلتے ہیں ، سڑک کی ایک طرف منڈی اور دوسری جانب اسٹیشن تھا ، ہم وہاں گئے ، جو کوئی اہلکار ڈیوٹی پہ موجود تھا ، اسے ویٹنگ روم کھولنے کا کہا ، اس نے حکم کی تعمیل کی اور ہم اٹھارویں صدی کے بنے ویٹنگ روم میں براجمان ہوگئے ۔

rail track
Image by vskwatanabe from Pixabay

میزبان بے چارہ پریشان حال ہمارے پیچھے پیچھے آیا اور کہا آپ یہیں تشریف رکھیں ، میں کھانا لیکر آتا ہوں ۔ تھوری دیر میں وہ کھانا لیکر آگیا ۔ پہلے اسے تسلی دی کہ تم مت گھبراو ، ہم آئیندہ جلسے میں اس چیف کی اینٹ سے اینٹ بجادینگے پھر کھانا کھایا ، اسے رخصت کیا اور ہم آرام کرسیوں پہ سستانے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ موسلا دھاربارش برسنے لگی اور ابھی ہم انجوائے کرنے کی سوچ رہے تھے کہ ویٹنگ روم کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا ۔ کرپشن ، جس کا رونا ہم آج رو رہے ہیں ، ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ، سرکاری عمارات کی سالانہ مرمت کے نام پہ زر کثیر ہڑپ کرلیا جاتا ہے مگر مرمت صرف کاغذوں میں ہوتی ہے ۔ ریلوے کا بھی یہی حال تھا اور ہے ۔ اس اسٹیشن کی آخری بار لپائی اور مرمت شاید آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے کروائی ہوگی ورنہ بارش کا پانی دھار باندھ کر ہم پر نہ گرتا ۔ کمرے میں ہر طرف پانی ہی پانی ، ہینڈ بیگ اٹھایا اور اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں چلے گئے جو قدرے کم ٹپکتا تھا ۔  گاڑی آئی ، سوار ہوئے اور سحری کے قریب کیمبل پور پہنچ گئے ۔

اس طرح کے بیشمار واقعات پیش آئے ، تاہم الیکشن مہم جاری رہی ۔ الیکشن ہوئے اور خدا کے فضل وکرم سے پورے ضلع کیمبل پور سے ہم فقط صوبائی کی دو نشستیں جیت سکے ۔فتح جنگ سے منور خان بھگوی اور شھر سے ملک حاکمین خان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے ،  قومی و صوبائی کی باقی تمام نشستیں مسلم لیگ کے حصے میں آئیں ۔

1970 تاریخی سال تھا ، مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بنا اور ادھر ذوالفقار علی بھٹو بچے کھچے پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان مقرر ہوئے ۔

غلام مصطفی کھر کو پنجاب کا گورنر مقرر کیا گیا جنھوں نے اپنی کابینہ تشکیل دی ۔ اگرچہ عاشق کلیم شکست کھاچکے تھے مگر بھٹو صاحب نے ان کی خدمات کے عوض انہیں گورنر پنجاب کا مشیر بلدیات و سماجی بہبود تعینات کردیا شاید یہیں سے عاشق کلیم اور ملک حاکمین کے درمیان کھچاو اور تناو پیدا ہوا جو آگے چل کر شدید اختلاف میں تبدیل ہوگیا ۔ ملک صاحب کا خیال تھا کہ ایم پی اے کی حیثیت سے وزیر یا مشیر بننا ان کا حق ہے لیکن خدمات کو سامنے رکھ کر پارٹی نے عاشق کلیم کو موقع دیدیا ۔

عاشق کلیم چند ماہ تک اس عہدے پر متمکن رہے لیکن اپنے لا ابالی پن اور نا تجربہ کاری کی بناء پر جلد ہی مشیر کی ذمہ داری سے سبکدوش کردئے گئے ، اب ملک صاحب کا دور شروع ہوتا ہے ۔

جاری ہے …..

SAS Bukhari

سیّدازادہ سخاوت بخاری

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سلطان محمود بسمؔل ماجد صدیقی کی نظر میں

پیر جولائی 26 , 2021
بسمؔل غزل اور قطعہ کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں اورنظم کا پیمانہ وہ صرف اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انہیں اپنے وطن یا اپنے عقائد کے حق میں کچھ کہنا ہو
سلطان محمود بسمؔل ماجد صدیقی کی نظر میں

مزید دلچسپ تحریریں