یہ مضمون اشاعت مکرر ہےاس لئے واقعات و تواریخ پرانی ہیں
آغا جہانگیر بخاری
تبصرہ
سیدزادہ سخاوت بخاری
آج کے مضمون کا عنوان میں نے معروف ادیب کرنل شفیق الرحمان مرحوم سے مستعار لیا ہے ۔ ان کے تحریر کردہ مزاحیہ افسانے ، حماقتیں اور مزید حماقتیں ، اردو ادب کا سرمایہ ہیں ۔
زمانہ طالب علمی میں جب یہ کتابیں پڑھیں تو ندرت عناوین نے حیرت زدہ رکہا لیکن آج جب حادثاتی کیپٹن صفدر مانسہروی کو راجہ بازار ، پرانا قلعہ ، موتی بازار اور راول پنڈی کے دیگر تنگ بازاروں میں چند سو دیہاڑی دار جلوسیوں کے ساتہ کرتب دکھاتے دیکھا تو
کرنل شفیق الرحمان کی کتابوں کے عنوان بھی سمجھ میں آگئے ۔
شریف خاندان اور ان کے متعلقین و معاونین کی سیاسی زندگی کو بھی دو بڑے اور بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
حصہ اول : حماقتیں
یہ وہ حصہ ہے کہ جس میں انہوں نے دوران اقتدار ، قومی دولت پہ ہاتھ صاف کئے اور پاکستان سے زیادہ بیرون ملک نابالغ بچوں کے نام قیمتی جائیدادیں بنائیں ۔
مخالفین پہ بے بنیاد مقدمات قائم کئے ، یہانتک کہ ماڈل ٹاون جیسا واقعہ ان کی ناک کے عین نیچے وقوع پذیر ہوا ، جس میں 14 بیگناہ شہید اور درجنوں مجروح و اپاہج ہوگئے ۔
سنا ہے کہ مظلوم کی آہ ، بددعاء سے زیادہ تیز رفتار سے عرش کو ہلادیتی ہے ۔
یوں تو ان کے منفی کارناموں کی تفصیل ، ان کی مدت اقتدار سے کئی گنا طویل و عریض ہے اور اس پر کئی جلدوں پہ محیط ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا ترتیب دیا جاسکتا ہے لیکن
چونکہ
سیاست کو خدمت کا نام دیا جاتا ہے اسی لئےمخلص سیاسی راہنماء ، اقتدار میں آکر قومی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں تاکہ سب سے پہلے اہم بنیادی مسائل کو حل کیا جائے ۔ مثلا ، بے گھروں کے لئے گھر ، بے روزگاروں کے لئے روزگار ، مریضوں کے لئے شفاء خانے ، نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مدارس کی تعمیر اور اسی طرح دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی وغیرہ ، نہ کہ بھوکے ، پیاسے ، ننگے ، بےگھر ، بے روزگار اور ان پڑھ لوگوں کے لئے موٹرویز ، میٹرو بسیں اور اورینج ٹرین ۔ اگرچہ یہ سہولیات بھی ملنی چاہئیں لیگن بات گھوم کر ترجیحات پر آتی ہے کہ پہلے کونسی سہولت اور ضرورت پوری کی جائے ۔ لاہور جیسے قدرے ترقی یافتہ شہر پر کھربوں روپے لگانے ضروری ہیں یا تھر کے ریگستانوں میں سسک سسک کر مرنے والے بچوں کی جان بچانا ، میٹرو بس ضروری ہے یا فاٹا کے سنگلاخ پہاڑوں میں بسنے والے قبائل کے لئے اسکول ، کالج ، پختہ راستے اور شفاء خانے قائم کرنا ۔ اورینج ٹرین اہم ہے یا پانی کے ذخیرے قائم کرنا ۔ کروڑوں پیدل چلنے والوں کی موجودگی میں جدید موٹر ویز کس کام کے ۔
ان کے مخالفین جب انہیں مغل بادشاہوں سے تشبیہ دیتے ہیں تو ان کی بات میں وزن نظر آتا ہے ۔ آپ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر سے بہادر شاہ ظفر تک کے ادوار اور کارناموں پہ نظر دوڑا لیں ، آپ کو شاہی قلعے ، شاہی مساجد ، بارہ دریاں ، تاج محل ، ہرن مینار ، شالا مار باغ تو نظر آئینگے لیکن کوئی ایک تعلیمی ادارہ یا ہسپتال نہیں ملیگا اور وہ اس لئے کہ انہیں اپنا ذوق تعمیر پورا کرنا تھا ، رعایا جائے بھاڑ میں ، بعینہ اسی طرح اس لوہارو خاندان نے بھی اپنی کمیشن کھری کرنے کے لئے نظر آنیوالے منصوبوں کو ترجیح دی ۔ پاکستان بھر میں عمومی طور پر اور لاہور میں باالخصوص اہم شفاء خانے اور تعلیمی ادارے غیر مسلموں کے ہیں ، میئو ہسپتال ، گنگارام ہسپتال ، گلاب دیوی ہسپتال ، کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج ، گورنمنٹ کالج ، چیفس کالج ، دیال سنگہ کالج اور نہ جانے اور کتنے رفاعی ادارے کافروں نے ہمارے لئے ورثے میں میں چھوڑے ہیں ۔
بات ہورہی تھی ان کی حماقتوں کی ، جسے ہم ان کا پہلا دور یا زمانہ اقتدار کہینگے کہ جس میں ان کا سارا زور حصول زر کے سامان پیدا کرنا تھا ، اب آئیے دوسرے دور کی طرف چلتے ہیں ،
دوسرا دور ‘ مزید حماقتیں ‘
فارسی میں کہتے ہیں ،
طمع ( لالچ) را سہ حرف است و ہر سہ خالیست ، یعنی طمع کا لفظ تین حروف ط م ع سے مل کر بنا ہے لیکن تینوں کا دامن نقطے سے خالی ہے ، ان میں کہیں نقطہ نہیں ، دوسرے لفظوں میں طمع یا لالچ کا دامن کبہی بھرتا نہیں ، 99 کا چکر کبھی ختم نہیں ہوتا ، لالچی انسان 100 پورا کرنے کے چکر میں ساری زندگی گزار کر بھی اس کفن کا حقدار ٹھہرتا ہے کہ جس میں جیب نہیں ہوتی اور خالی ہاتھ دنیاء چھوڑ جاتا ہے ۔ آل شریف بھی اربوں کھربوں کے مالک بن گئے لیکن لالچ ختم نہ ہوئی ، اگر ان کے کدو نماء سروں میں رتی برابر بھی عقل ہوتی تو جب عمران خان نے
گو نواز گو کا نعرہ لگایا تھا ، فوری طور پر استعفے دیکر ملک سے بہ آسانی نکل جاتے ، نہ بانس رہتا اور نہ بانسری بجتی ۔ اس کے برعکس انہوں نے دعوی کردیا کہ
حضور یہ ہیں وہ ذرائع ، اور آبیل مجھے مار کے مصداق خود ہی سپریم کورٹ کو کمیشن بنانے کے لئے خط بھی لکھ دیا ، کہتے ہیں جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے ، ان کے اپنے ہی غلط فیصلے انہیں اڈیالہ تک لے آئے ۔ لیکن ایسا نہیں ، بالکل ایسا نہیں ،بلکہ ؛
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
مظفر وارثی
ہم مسلمان ہی کیا ، تمام اہل کتاب بلکہ غیر الہامی مذاہب کے ماننے والے بہی اس بات پہ یقین رکہتے ہیں کہ نظام ہستی کو چلانے والی کوئی ہستی ہے ، اسی لئے بزرگوں نے کہا کہ ،
سارے فیصلے خود مت کیا کرو ، ایک حصہ اللہ کے لئے بھی چھوڑ دو
انسان فقط سوچ سکتا یے ، ارادے باندہ سکتا ہے ، ان پہ عمل کا دارومدار اس کے ہاتہ میں ہےجو اس کا ئنات کا خالق و مالک اور چلانے والا ہے ۔ آل شریف کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ صرف اور صرف مکافات عمل ہے ، استاد نے کیا خوب کہا تھا ،
یاں خوب سودا نقد ہے ، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
نظیر اکبر آبادی
اسی طرح فیض احمد فیض کی مشہور نظم کا مصرع ہے ،
یہیں سے اٹھے گا شور محشر یہیں پہ یوم حساب ہوگا
فیض احمد فیض
ہم سمجھتے نہیں ، غور نہیں کرتے ورنہ قرآن میں جو پہلی قوموں کے قصے لکھے ہیں وہ محض داستان گوئی نہیں بلکہ سمجھایا گیا ہے کہ ، باز آجاو ورنہ تمہارا حشر بھی ویسا ہی ہوسکتا ہے ۔ فرعون ، شداد ، نمرود اور نہ جانے کیسے کیسے عالی مرتبت شاہ آئے ، کہاں ہیں آج ،
جوش ملیح آبادی کا ایک مصرعہ ہے ؛
اے کاسہ سر بول تیرا تاج کہاں ہیں
جوش ملیح آبادی
قصہ مختصر یہ اللہ کی پکڑ میں آگئے ہیں اور حماقتوں سے آگے بڑھکر مزید حماقتوں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ان کا خیال تھا ، ججوں اور جرنیلوں کو گالیاں دینے سے ان کی سطوت شاہی میں اضافہ ہوگا اور اسطرح یہ اپنی سلطنت بچانے میں کامیاب ہوجائینگے لیکن جب وقت برا آجائے تو ہاتھ میں پکڑا ہوا سونا بھی مٹی بن جاتا ہے ، آنکہوں پہ پٹی بندھجاتی ہے ۔ کان ، زبان اور دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے ، اسی لئے تو اللہ کے جلیل القدر انبیاء نے بہی اپنے رب سے دعائیں مانگی کہ اے اللہ ہمیں ہمت اور حوصلہ بخش ،ہمیں قوت گویائی عطاء کر تاکہ جابر و ظالم بادشاہوں کے روبرو درست کلام کرسکیں اور ان تک تیرا پیغام پہنچا سکیں ۔
مختصر سی بات عرض کرنا تھی لیکن قصہ طویل ہوتا چلا جارہا ہے ، کیپٹن صفدر کا راولپنڈی میں جلوس دیکھ کر گمان ہوا ، شاید سلطان راہی کی کوئی پنجابی فلم دیکھ رہا ہوں ، جیپ پر سوار کپتان اور ان کے ہمراہی ، بالکل سلطان راہی اور مصطفے قریشی کی طرح پولیس اور نیب افسران سے مخاطب تھے ،
اوئے تھانیدارا
اوئے چھڈ دے مینوں
اوئے ہٹ جا اگوں
رستہ دیدے نئیں تے تیری ماں وین پائے گی
” بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ،
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی "
دراصل یہ ٹریلر تھا اس فلم کا جو آئیندہ جمعہ کے مبارک دن سے ملک کے کئی شہروں میں ریلیز کی جائیگی ۔ یہ ریہرسل تھی ، متوقع احتجاج کی کہ جو میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی آمد پہ کیا جائیگا ۔ یہ سب کچھ ہوتو گیا مگر
مزید حماقتوں کے ضمن میں حضرت صفدر مانسہروی اپنے خلاف کئی مزید پرچے کٹواگئے ، مثلا ،
1۔ بروقت اور رضاکارانہ گرفتاری نہ دی بلکہ قانون کی نظر میں نیب نے ایک مفرور کو سڑک پر جاتے ہوئے گرفتار کیا ۔
2۔ راولپنڈی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود ریلی نکالی ۔
3۔ ایک سزاء یافتہ مجرم نے ریلی سے خطاب کیا ۔
4۔ گرفتاری میں مزاحم ہوا اور اپنی مرضی کےمقام پر گرفتاری دی ۔
5۔ ایک مفرور راولپنڈی میں جہاں ٹھہرا ، جن کے پاس روپوش رہا وہ سب مجرم۔
6۔ دوران جلوس مفرور کی گرفتاری میں جو ساتھی مزاحم ہوئے ان کے خلاف قانونی کاروائی۔
7۔ جن جن لوگوں نے مفرور کی ریلی میں شرکت کی ان کے خلاف قانونی کاروائی ۔
8۔ جن جن لوگوں نے مفرور کی ریلی کو منظم کرنے کے لئے سہولیات بہم پہنچائیں ان کے خلاف کاروائی ۔
وغیرہ وغیرہ ۔
آخر میں صرف اتنا عرض کرونگا ،
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے ، ان کے بعد ،
اینٹ سے اینٹ بجانے والے کا نمبر ہے اور اس سیریل کا آغاز بھی معروف بینکر
حسین لوائی اور دیگر کی گرفتاری سے شروع ہوچکا ہے ۔
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔