آج سے چودہ سو سال قبل کائنات جب کفر و شر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مستور تھی زندگی کے آئینہ خانے میں کہیں وحدت کے رنگ نظر نہیں آتے تھے۔ جابر حکمرانوں کے ہاتھوں میں وقت کی طنابیں تھیں۔ شبِ سیاہ نے پر نور سحر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ عرب کے دروغ گوئی کے رسیا جہالت کی وادی میں بھٹک رہے تھے۔ کمزوروں یتیموں اور بے بسوں کو نویدِ حیات کا مژدہ سنانے والا کوئی نہ تھا۔
نومولود بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ مئے نوشی ان کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ایسے حالات میں رحمت ستارالعیوب نے جوش میں آکر رنگ بدلا اور کائنات کے ذرے ذرے کو ایک نئی ضیا عطا کر کے حضرت بی بی آمنہ ؑ کے پاک آشیاں پر ایک شفیعِ اعظم، نبی مکرم، رسولِ معظم ، پیغمبرِاکرم ، رہبرِ کامل ، بدر منیر ، بشیر و نذیر ، سراج منیر ، سیدِ ابرار ، مدنی تاجدار ، حبیب غفار ، شافع یوم قرار ، قدرِ انجمن لیل و نہار اور آفتاب نو بہار کی ضیا بخشی جس کے حسن و جمال کے متعلق اللہ غفار الذنوب اپنی درخشاں کتاب میں کچھ یوں مخاطب ہوتا ہے :۔
والضحٰی "یعنی تیرے چاشت کی طرح چمکدار چہرے کی قسم ، تیرے حسنِ زیبا کی قسم ، تیرے جلوہ آرا کی قسم
القرآن 93-1
"والیل اذا سجٰی” یعنی قسم ہے اندھیری رات کی طرح بکھری ہوئی زلفوں کی جن کو بوسے تیرے شانے دیتے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کائنات کے ذرے ذرے کو خوبی و رعنائی عطا کرنے کا باعث بنی ۔ آپ ہی کے نور سے پھولوں کی نکہت ، ماہتاب کی تاباں کرنیں اور سارے جہاں کی ضیا پاشیاں ہیں ۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور آپ کی حسیں مسکراہٹ موج کوثر کے وجد کے اضطراب کا نام ہے ، پھولوں کی پھبن ، کلیوں کے بانکپن کا نام ہے اور آفتاب سے پھوٹی ہوئی کرن اور ماہتاب سے چھلکی ضیا کا نام ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کائنات کے اندھیرے کو ایسی ضیا بخشی کہ عرب میں دروغ گوئی کے رسیا حق گوئی و بے باکی کے علمبردار بن گئے جو شتربان تھے جہاں باں بن گئے ۔ مظلوموں کو جبر سلطانی سے نجات دینے والے آپ ہیں ۔ کائنات کی سجدہ ریز جبینیں آپؐ اور آپؐ کی پاک آلؑ کا کمال ہے گویا اللہ رب العزت کی پہچان آپ نے کرائی ۔ آپ نے جہاں نماز، روزہ ،حج، زکواہ خمس، جہاد اور دین کے دیگر احکامات کے متعلق روشن تعلیمات سے انسانیت کو نوازا، وہاں آپ نے نماز شب کی تابانیوں جلوہ سامانیوں اور ضیا پاشیوں کے متعلق تعلیمات سے بھی آگاہ فرمایا ۔
نماز شب کہنے کو تو ایک نفلی نماز ہے لیکن یہ خوشنودی ء رب حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ نمازِ شب کے لیے جب ایک زاہد اٹھتا ہے تو ساری دنیا اپنے لحاف اوڑھے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہے۔ نمازِ شب ادا کرنے والا جب رات کی تاریکی میں بڑے وقار اور عاجزی کے ساتھ اٹھتا ہے تو خنک جھونکے اس کا استقبال کرتے ہیں چاندنی رات اسے مبارک باد دیتی ہے اور ستاروں سے بھری دودھیا فضا اسے مژدہ ءجانفزا سناتی ہے۔ مسجد تک جاتے جاتے تمام لطافتیں راستے میں بچھ جاتی ہیں سارا راستہ کہکشاں بن جاتا ہے اور اللہ رب العزت اپنے فرشتوں سے اسی وقت ارشاد فرماتا ہے اسی وقت اس لیے کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے پیارے فرشتو ! ذرا دیکھو میرا بندہ کس شان اور عاجزی سے میری طرف بڑھ رہا ہے۔ روئے زمیں سے عرش بریں تک فرشتے اس نمازی کی عاجزی کو دیکھ کر آنحضورؐ کی درخشاں تعلیمات کو یاد کر کے فضا کو درود و سلام کے دل آویز نغموں سے معمور کر دیتے ہیں ۔ نمازِ شب کی طرف بڑھنے والے اس شخص کے ہر قدم اور سانس کو نیکی میں شمار کیا جاتا ہے ۔ مسجد میں پہنچ کر نمازی کو ہر ذرہ دلکشی ورعنائی کا پیکر، ہر شے نور میں ڈھلی ہوئی ، ہر خیال معطر معطر اور ہر تصور گلشنِ بداماں نظر آتا ہے کیو نکہ اللہ جل شانہ اپنی طرف بڑھنے والے اس نمازی کی سوچ اور تصور کو پستیوں سے نکال کر اوج کی طرف لے آتا ہے ۔ کیو نکہ اس وقت اللہ رب العزت اور اس بندے کے درمیان فاصلے سمٹ جاتے ہیں کیو نکہ نمازِ شب ادا کرنے والے کو لذتِ آشنائی کے نوری زینوں پر فائز کیا جاتا ہے اسی لذت کو حضرت اقبال ؒنے بھی محسوس کیا اور یہ شعر رقم کر ڈالا :۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
مسجد میں پہنچ کر خشوع و خضوع کے ساتھ وضو کرنے کے بعد جب نمازی سبحان اللہ کا ورد کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اس کی آنکھیں بارگاہِ خدا میں غم سے چھلک پڑتی ہیں۔ وہ گناہوں کا اقرار کرتا ہے اور رحم کی التجا کرتا ہے۔ اپنے آنسووں سے چشم و دل خوب منزہ و مطہر کر کے گناہوں کی آلودگیوں سے دامن دل دھو ڈالتا ہے ۔ وہ نہایت عاجزی ، فروتنی اور انکساری کے ساتھ نماز شب کی نیت کرتا ہے تو خطاوں سے درگزر کرنے والا ، آہوں اور اشکوں کی التجائیں سننے والا اور نادم پر اپنی رحمت کی چادر تان دینے والا ربِ کائنات نمازی کی تشنہ نگاہوں کو سیراب کر کے اسکے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور رب العزت اور اس کے پاک فرشتے سوئے ہوئے افراد کو لازمی طور پر یہ کہتے ہوں گے بقول شاعر:۔
پچھتائے گا ، منزل ہے کڑی ، دیکھ کہا مان
کچھ زاد سفر باندھ لے دامان کفن میں
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ نماز شب پڑھنے والے کا دل میں اپنے نور سے منور کر دیتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ نمازِ شب ادا کرنے والا ہر دلعزیز اور پر کشش شخصیت کا ما لک بن جاتا ہے ۔ اس کے لئے ڈر اور خوف کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ رحمتوں کی گھٹائیں اُس پر برس چکی ہوتی ہیں جن میں نفس کی سب شرارتوں کی آتش بجھ چکی ہوتی ہے نظافتِ روح اس کے نفس کو مطمئنہ کے درجہ پر لے جاتی ہے جہاں نفسِ امارہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
نمازِ شب کی اہمیت آنحضورؐ نے مختلف مواقع پر بتائی ہے جس کا ہم تھوڑا تھوڑا ذکر کریں گے۔
جاری ….
سیّد حبدار قائم
کتاب ‘ نماز شب ‘ کی سلسلہ وار اشاعت
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔