کیمبل پور سے اٹک تک – 10

تحریر:سیدزادہ سخاوت بخاری

عاشق کلیم مرحوم کا اصرار تھا کہ میں امیدوار صاحب کو ان کے پاس لیکر جاوں ، جبکہ موصوف اس بات پہ بضد کہ ٹکٹ پکا کریں تو میں سامنے آوں گا ۔ کافی بحث و تکرار کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ ملاقات ہوگی لیکن اسے خفیہ رکھا جائیگا ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ امیدوار اور ضلعی صدر کی ملاقات کے بعد ، طے پایا کہ پارٹی کی صوبائی اور مرکزی قیادت کو اعتماد میں لیکر اس بات کو آگے بڑہایا جائے ۔ کیمبل پور اگرچہ اس وقت بھی صوبہ پنجاب ہی کا حصہ تھا اور اصولی طور پر ہمیں پنجاب ہی کی قیادت سے بات کرنی چاھئے تھی لیکن ہوا یہ کہ ، لاھور سے بہت دور اور پشاور کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ، بھٹو مرحوم نے ہمیں ، صوبائی سطح پہ پشاور سیکریٹیریٹ کے ماتحت کردیا ۔ یاد رہے ، اس وقت صوبہ سرحد کے صدر حیات محمد خان شیرپاؤ تھے ، جو بعد میں صوبے کے گورنر بنے ، وزیر رہے اور بعد ازاں ایک بم حملے میں ھلاک ہوگئے ۔ ان کی وفات کے بعد ان کا بھائی آفتاب شیر پاو سیاست میں آیا ۔ امیدوار صاحب کی ٹکٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لئے حیات محمد خان مرحوم سے رابطہ کیا گیا ، جواب ملا ، فلاں تاریخ کو بھٹو صاحب پشاور آرہے ہیں ، آپ امیدوار کو لیکر یہاں آجائیں ، بات کر لیتے ہیں ۔ میں ، عاشق کلیم اور امیدوار ، تاریخ مقررہ کی شام یونیورسٹی ٹاون پشاور میں واقع شیرپاو ہاؤس پہنچ گئے ۔ پورے صوبہ سرحد سے کارکن اور راہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو ملنے کے لئے وہاں موجود تھے ۔

iattock

صحن اور برآمدے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ، تھوڑی دیر گزری تھی کہ شیرپاو صاحب باہر آئے ، ہم پہ نظر پڑی ، قریب آئے ، کسی کو بلاکر ہمارے لئے نشستوں کا بندوبست کیا اور ساتھ ہی بتادیا کہ چین کا پشاور میں قونصل جنرل اس وقت ” صاحب ” کے پاس بیٹھا ہے ، وہ جیسے ہی اٹھے گا میں باہر آکر آپ کو اندر لے جاونگا ۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ وہ باہر آئے اور عاشق کلیم کو سرگوشی کے انداز میں کہا کہ امیدوار صاحب یہیں تشریف رکھیں ، آپ دونوں اندر جاکر ” صاحب ” سے مل لیں ۔ میں اور عاشق کلیم شیرپاؤ کے ہمراہ کمرے میں گئے ، بھٹوصاحب عوامی سوٹ میں ملبوس کرسی پہ تشریف فرماء تھے ۔دعاء سلام کے بعد ، کیمبل پور میں پارٹی کی سرگرمیوں اور عوامی رد عمل کے بارے میں پوچھا ، مختصر سی گفتگو کے بعد ، عاشق کلیم نے بتایا کہ ایک صاحب کو لیکر آئے ہیں ، جو شہر کی صوبائی نشست کے لئے موزوں امیدوار ہوسکتا ہے لیکن اس کی طرف سے شرط رکھی گئی ہے کہ ٹکٹ کا پکا وعدہ کریں تو پارٹی میں شامل ہو جاونگا ۔ بھٹو صاحب نے کہا ، ٹکٹ دینگے ، اسے کہیں پارٹی میں شامل ہو جائے ۔ یہ ملاقات زیادہ سے زیادہ دس منٹ تک جاری رہی اور ہم اجازت لیکر باہر آگئے ۔ بھٹو مرحوم کی عادت تھی کہ اگر ضروری نہ ہو تو کسی کو بھی 5 سات منٹ سے زیادہ وقت نہیں دیتے تھے ۔ باھر نکلے ، شیرپاو صاحب سے اجازت لی اور گاڑی میں بیٹھ کر پیشاور صدر میں واقع گرین ھوٹل آگئے ۔ اب امیدوار صاحب نتیجہ سننے کے لئے اسقدر بے تاب کہ ، دم نہیں لے رہے ، بار بار مجھ سے پوچھ ریے ہیں ، شاہ جی ! کیا ہوا ، بھٹو صاحب نے کیا جواب دیا ۔ میری مجبوری یہ کہ عاشق کلیم نے مجھے منع کردیا تھا کہ اسے بتانا نہیں ۔ گرین ھوٹل کی چھت پہ بنے اوپن ائر ریستوران میں پشاوری باربی کیو سے ہماری تواضع کی گئی ، گپ شپ ہوتی رہی لیکن حضرت نے نتیجہ جاننے پہ اصرار جاری رکھا ۔ اسی سسپینس کو بحال رکھتے ہوئے جب میں ھاتھ دھونے کے لئے واش روم گیا تو وہ آکر میرے عقب میں کھڑے ہوگئے اور کہا کہ باہر نہیں جاسکتے ، بتاو کیا جواب ملا ، میں نے کہا عاشق کلیم کو پتہ نہ چلے کیونکہ انہوں نے منع کررکھا ہے ، کام آپ کا ہوجائیگا لیکن پہلے پارٹی جوائن کرنی ہوگی ۔ امیدوار صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا ۔ عاشق کلیم مرحوم کی تعلیم تو زیادہ نہ تھی لیکن بہت ہی ذہین و فطین شخص تھا ، جب ہم واپس آکر بیٹھے تو کہنے لگے ، بخاری مجھے یقین تھا یہ آپ سے بات پوچھ کر چھوڑے گا ۔ اچھا کوئی بات نہیں ، کل صبح اگلا پروگرام طے کرینگے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ، وقت کیا کیا منظرنامے پیش کرتا ہے ، مجھے تو ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اجازت ملی لیکن مستقبل کا وزیر باہر بیٹھا ہمارا انتظار کرتا رہا ۔

(جاری ہے )

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سیّدزادہ سخاوت بخاری

مسقط

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

غرور

جمعہ جون 11 , 2021
وہ سکھوں کے محلے میں اکیلا ہندوتھا۔ وہ روز گرودوارے جاتا اور گروگرنتھ صاحب پڑھاکرتا۔
غرور

مزید دلچسپ تحریریں