ایک گاوں میں دو دوست سنی اور جمی رہتے تھے۔ سنی ساتویں میں جبکہ جمی آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ دونوں بہت ذہین طالب علم تھے۔اپنے گاوں سے پیدل چل کر شہر میں علم حاصل کرنے کے لیے سکول میں جاتے تھے۔ گاوں کے رستے پر ایک پولیس کی چیک پوسٹ تھی اور سارا راستہ کچا تھا جس کے اردگرد کھیت اور ہریالی تھی۔ سنی انتہائی لائق اور والدین کا فرمانبردار بیٹا تھا جبکہ جمی لائق ہونے کے ساتھ ساتھ لالچی بھی تھا اسے چاکلیٹ بہت پسند تھی۔ اور وہ چاکلیٹ کے لیے کچھ بھی کر سکتا تھا۔سکول کی اسمبلی میں ہر روز اساتذہ کرام بچوں کو بتاتے تھے کہ سکول آتے وقت اور سکول سے واپس جاتےوقت کسی سے کوئی چیز لے کر نہ کھائیں اور نہ ہی کسی کا سامان اپنے پاس رکھیں۔سنی والدین اور اساتذہ کی باتوں پر سختی سے عمل کرتا تھا جبکہ جمی سنی ان سنی کر دیتا تھا۔ایک دن سکول سے چھٹی کر کے سارے بچے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔جمی نے بھی اپنا بستہ اٹھایا ہوا تھا اور سب دوستوں سے آگے جا رہا تھا۔ جمی کو راستے میں ایک شخص ملا جس نے کالے رنگ کے چشمے پہنے ہوئے تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک بیگ اور بہت ساری چاکلیٹس تھیں۔جمی نے جونہی چاکلیٹس دیکھیں تو اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ اجنبی شخص سیمی کی کمزوری بھانپ گیا اور اسے کہنے لگا کہ بیٹا میں تھک گیا ہوں یہاں بیٹھ کر آرام کرنا چاہتا ہوں اگر تم میرا یہ بیگ گاوں تک لے جاو تو یہ ساری چاکلیٹس میں تمھیں دے دوں گا۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ مارے خوشی کے جمی کی باچھیں کھل گئیں اور اس نے چاکلیٹس لے کر اجنبی شخص سے بیگ لے لیا اور تیز تیز گاوں کی طرف چل دیا۔راستے میں پولیس چیک پوسٹ تھی خلاف معمول جمی کے ہاتھ میں بستے کے ساتھ ایک قیمتی بیگ دیکھ کر انہوں نے جمی کو روکا اور بیگ کو چیک کیا تو اس میں منشیات رکھی ہوئی تھی ۔پولیس نے جمی کو گرفتار کر لیا اور منشیات سے بھرا بیگ قبضے میں لے لیا۔ جمی بہت رویا ،گڑگڑایا کہ یہ بیگ اس کا نہیں یہ کسی اجنبی شخص کا ہے لیکن پولیس کب ماننے والی تھی۔ جمی کو منشیات رکھنے اور فروخت کرنے کے جرم میں عدالت نے جیل میں بھیج دیا اور یوں ایک چھوٹی سی لالچ نے اس کا مستقبل تباہ کردیا۔پیارے بچو! کسی اجنبی شخص سے کوئی کھانے کی چیز یا کوئی سامان لے کر کہیں لے جانا کسے بڑے حادثے کا باعث بن سکتا ہے اس لیے ہمیشہ اساتذہ اور والدین کی باتوں پر سختی سے عمل کیا کریں تاکہ جمی کی طرح لالچ میں آ کر اپنا روشن مستقبل داو پر نہ لگا دیں۔
سید حبدار قائم آف اٹک
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔