خاموش صدائیں

(کہانی / قصہ گوئی میں یہ میری پہلی کاوش ہے)

تحریر: شاندار بخاری

مقیم: مسقط

کام کے سلسلے میں اک دور دراز چھوٹے سے شہر  جانے کا اتفاق ہوا اور میں خود بھی کئی دنوں سے اس جگہ جانے کا خواہاں تھا کیونکہ میں بچپن میں کچھ عرصہ وہاں رہ چکا تھا لیکن وہاں سے جانے کے بعد تعلیم اور اس کے بعد معاش کے معاملات میں ایسا مستغرق ہوا کہ نہ یاد رہا اور نہ ہی موقع مل پایا اور اب اس پروجیکٹ میں اس شہر کا نام پڑھ کر دل میں خیال آیا کہ اگر میرا نام اس دورے میں آ جائے تو اس مرتبہ وہاں کی ساری پرانی جگہوں پر جاوں گا اور ان لوگوں سے بھی ملوں گا جن کے ساتھ ایک اچھا وقت گزرا تھا۔ جدید دور کی سہولیات میں فیس بک نے جہاں بہت سے نقصانات پہنچائے ہیں وہاں اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ پرانے ساتھیوں کو بندہ نام لکھ کر ڈھونڈ سکتا ہے اور میں نے کئی مرتبہ اس سے پہلے بھی وہاں کہ پرانے ساتھیوں کو ڈھونڈنا چاہا لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی تو یہ بھی ایک خلش دل میں باقی تھی۔

خاموش صدائیں
خاموش صدائیں

ٹرین کا ٹکٹ لیا اور وہاں پہنچ گیا اسٹیشن پر وہاں کے پروجیکٹ مینجر لینے آئے تھے اور وہاں سے ہم سیدھا اپنے پروجیکٹ کی سائٹ پر پہنچ گئے سارا دن کام کے سلسلے میں مصروف رہے اور رات کو کھانے سے فراغت کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ صبح واپس چلے جائیں میں مزید ایک دن یہاں قیام کرنا چاہوں گا کچھ لوگوں سے ملنا ہے کچھ جگہوں پر جانا ہے خیر ان میں سے کچھ چلے گئے اور کچھ نے کہا کہ ہم بھی کل یہاں گھومنا چاہتے ہیں آپ بھی اپنا کام نپٹا لیں اور پھر شام کی گاڑی سے اکٹھے واپس چلیں گے مجھے یہ تجویز پسند آئی اور اگلے دن کے معاملات اور ملاقاتوں کو سوچتے ہوئے میں بھی سونے چلا گیا رات بھر خوابوں میں انہی گلیوں میں گھومتا رہا اور صبح جلدی اٹھ گیا ناشتہ کیا اور پیدل ہی نکل پڑا ، اب تو اس شہر کی ٹھنڈی ہواؤں نے میرا استقبال کیا بال کم ہونے کیوجہ سے ٹنڈ شریف یخ ہونے لگی لیکن مجھے اچھا لگ رہا تھا اس شہر میں اتنے عرصے کے بعد آنا اس کی دھوپ اور چھاوں میں چلنا کئی رستے کئی چہرے مانوس سے لگے لیکن نہ جانے کون تھے اور نہ جانے کہاں کھو چکے تھے۔

علاقہ جو ہمارے بچپن میں کھلا اور میدانی تھا اب وہاں کئی بازار ، پکی سڑکیں اور پلازے بن چکے تھے۔ لیکن کئی پرانی عمارتیں کچھ تگ و دو کے بعد پہچان میں آ گئیں اور وہاں سے منسلک راستوں سے ہوتا ہوا میں اپنے پرانے محلے تک پہنچ گیا۔  ایک بڑا سا چوراہا تھا جس سے متصل ایک پتلی سی گلی بل کھاتی ہوئی بازار کے پیچھے بنے محلے میں لے گئی دکانیں اور مکانات سب بدل چکے تھے کچھ تو رنگ و روغن کی وجہ سے اور کچھ اب نئے انداز میں تعمیر ہوئے تھے دل بہت اداس سا ہوا کہ ایک بھی مانوس چہرہ نہ دکھا اب کس کا دروازہ کھٹکھٹاوں کس سے پوچھوں اس وقت تو گلی میں بھی کوئی نہیں ہے ہر طرف ایک گونگا کر دینی والی خاموشی اور ہو کا عالم تھا اچانک منظر نظر میں بیٹھنے لگے تو دیکھا کہ تقریبا تمام مکانوں پر تو تالے پڑے ہیں ، یہ کیا ماجرا ہو سکتا ہے ؟ سارا محلہ کہیں اور شفٹ ہوگیا ہے کیا ،یا اب یہ جگہ مقامی بلدیہ گرا کر یہاں کچھ اور تعمیر کرنا چاہتی ہے ؟

Silent Street

یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک دیوار پر چسپاں آدھے پھٹے اشتہار پر نظر پڑی جس کی عبارت کا مفہوم یہی تھا کہ 6 ماہ کے دوران یہ علاقہ خالی کر دیا جائے اور اس کے بدلے میں حکومت سے ملے مکانات میں شفٹ ہوجائیں تاکہ بازار کی توسیع کا کام وقت پر شروع ہو سکے۔ تاریخ کچھ ماہ پہلے کی تھی خیر میں پھر بھی اس محلے میں چلنے پھرنے لگا کچھ پرانے دوستوں کے مکانات کو پہچان لیا لیکن اب وہ کوئی رہتا نہیں تھا چلتے چلتے گلی کے آخری مکان کیساتھ ایک راستہ اندر کیطرف پڑتے دیکھا اور جیسے میں ماضی کے دھندلکوں سے ہوتا ہوا بُولو خالہ کہ مکان تک جا پہنچا یہ مکان باقی مکانات کی نسبت بڑا اور کھلا تھا لیکن پیچھے کیطرف تھا اور ہم سارا دن بُولو خالہ کے گھر میں ان کے بچوں کیساتھ کھیلنے جاتے تھے ان کے مکان میں ایک کنواں ہوا کرتا تھا اور اکثر لوگ بشمول ہمارے وہیں سے پانی بھرتے تھے۔

میں اس راستے پر چلتا ہوا بُولو خالہ کے مکان تک جا پہنچا اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہی پرانا لکڑی کا بڑا سے دروازہ تھا اور حیرت ہوئی کہ صرف اس مکان پر تالا نہیں تھا اک عجیب سی خوشی سی محسوس ہوئی کہ شاید کوئی اب بھی یہان رہتا ہو۔ از   راہ تجسس دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی کہ دروازہ کھلا ہے اندر آ جاؤ آواز سن کر تو میں کئی سال پیچھے بچپن میں لوٹ گیا اور کئی خوشگوار یادیں ذہن میں دوڑنے لگیں اور اتنی دیر میں پھر سے آواز آئی کہ کون ہے اندر آ جاو تو میں چونکا اور کھانستا ہوا اندر داخل ہو گیا ، گھر کے صحن میں کنواں وہیں موجود تھا اس کے ساتھ ہی ایک بڑا سا لیکن جھکا ہوا پرانا انار کا درخت تھا اور بُولو خالہ جو کہ اب کافی ضعیف ہو چکی تھیں اس درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھی تھیں جنہیں میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا اور کہا خالہ

Old Well

سلام علیکم میں شاندار ہوں ،بخاری صاحب کا بیٹا آپ کے گھر کھیلنے آتے تھے بچپن میں کچھ دیر تعجب اور خاموشی کے بعد خالہ نے کہا کہ ارے بالکل پہچان لیا تم تو اب کافی بڑے اور موٹے تازے ہو گئے ہو اور ہم دونوں ہنس پڑے اس کے بعد کافی دیر تک ہم پرانی باتیں یاد کرتے رہے پرانے لوگوں کا ذکر کرتے رہے کئی لوگوں کا گزر جانے کا علم ہوا اور اسطرح کے کئی واقعات اور قصے کہانیاں سننے کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں تو خالہ کیلئیے کوئی تحفہ لا یا ہی نہیں جس پر میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کے اگلی مرتبہ ضرور لاوں گا یہ سن کر وہ ہنس پڑیں کہ اب کب ملاقات ہو میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ضرور آوں گا اور اب اجازت چاہوں گا تو خالہ بولیں کہ بیٹا جاتے جاتے اس کنویں کو تو دیکھتے جاؤ جس سے پانی نکال نکال کر تم سارا صحن بھگو دیتے تھے ہم دونوں ایک اور زوردار قہقہے کیساتھ ہنسے اور میں نے کہا کہ خالہ اب اس کنویں میں پرانی یادوں کے سوا کیا رکھا ہے تو خالہ بولیں دیکھ تو لو ،وہ میں کچھ دن پہلے پانی نکالتے ہوئے اپنا وزن برقرار نہ رکھ سکی اور اس میں گر گئی تھی میں نے پوچھا ارے خالہ آپ کو چوٹ تو نہیں لگی تھی تو خالہ مسکرائیں اور بولیں ارے چوٹ کیسی بس میری لاش اس میں اب تک تیر رہی ہے۔ وہ دیکھ لو ،،یہ سنتے ہی میں جو کنویں کیطرف بڑھ رہا تھا ایک دم رکا اور جو پیچھے دیکھا تو نہ تو خالہ تھیں نہ ہی کوئی آدم زاد۔

شاندار بخاری

شاندار بخاری

مدیر سلطنت آف عمان

اٹک ویب میگزین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

کشتیوں کا پل

پیر مارچ 15 , 2021
اٹک میں کچھ ایسے آثار قدیمہ بھی ہیں جن کا ذکر آج تک پوشیدہ ہے
کشتیوں کا پل

مزید دلچسپ تحریریں