مرے لوح و قلم کے سب ،حساب بھی اُدھورے ہیں
تری محبتوں کے یہ شباب ،بھی اُدھورے ہیں
ابھی سے موت پھر رہی ہے میرے پیچھے کس لیے
ابھی یہ میری آنکھوں کے تو خواب، بھی اُدھورے ہیں
ہمیں نے ہی تو چھوڑیں، قتل گاہ میں یہ خوشبوئیں
ہمارے خون کے بنا گلُاب بھی اُدھورے ہیں
صدائیں کس لیے تو دے رہا ہے یوں ہی ممتحن
ابھی تو سب سوالوں کے جواب بھی اُدھورے ہیں
اذانِ حق تو ہم ہی، دے رہے ہیں اب بھی چار سو
بغیر میرے شہر کے ،ِ انقلاب بھی اُدھورے ہیں
نہ جانے کون اب مجھے صدائیں پھر سے دیتا ہے
یہ دشت میں جو پھیلے ہیں سراب بھی اُدھورے ہیں
مٹا کے اپنے آپ کو اسؔد عروج بخشا ہے
نہیں تو پھر مرے بنا جناب بھی اُدھورے ہیں
کلام عمران اسؔد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔