پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا سفر: ماضی، حال اور مستقبل
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان کا قیام 1947 میں عمل میں آیا تو اُس وقت ملک میں صرف چار جامعات تھیں۔ ان میں سے تین برٹش انڈیا کے دور میں قائم ہوئیں جبکہ ایک قیامِ پاکستان کے فوری بعد قائم ہوئیں۔ اُس وقت تعلیمی وسائل انتہائی محدود تھے اور تعلیم کے میدان میں ترقی ایک بڑا چیلنج تھی۔ آج جب ہم 2025 میں کھڑے ہیں تو پاکستانی جامعات کی یہ تعداد 261 تک پہنچ چکی ہے، جن میں 154 سرکاری اور 107 نجی شعبے کی جامعات شامل ہیں۔ یہ اضافہ بظاہر خوش آئند نظر آتا ہے لیکن کیا واقعی ہم نے تعلیم کے معیار پر توجہ دی یا صرف تعداد بڑھا کر خوش ہورہے ہیں؟
2002 میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا قیام عمل میں آیا۔ HEC نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ہزاروں طلباء و طالبات کو گریجویشن سے لے کر پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ سرکاری و نجی دونوں شعبوں میں یونیورسٹیز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مگر اس تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیچھے ایک خاموش سوال ہمیشہ موجود رہا: کیا ان جامعات کا اور پاکستانی نظام تعلیم کا معیار بھی ساتھ ساتھ بڑھا یا نہیں؟ یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے۔
بدقسمتی سے جامعات کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ تعلیم و تحقیق کا معیار عالمی سطح پر بہت پیچھے رہ گیا۔ بین الاقوامی رینکنگز ہماری جامعات کی اصل حالت کو بے نقاب کرتی ہیں۔ 500 بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی، قائداعظم یونیورسٹی، شامل ہے جو 137ویں نمبر پر ہے۔ 1000 بہترین جامعات میں پاکستان کی کل 21 یونیورسٹیاں جگہ بنا پائیں۔ 2000 بہترین جامعات میں پاکستان کی کل 47 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار یقیناً ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہم نے انرولمنٹ بڑھانے پر توجہ دی، مگر تعلیم و تحقیق کے عالمی معیار کو نظر انداز کیا۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں گلوبلائزیشن نے ہر شعبے میں مقابلے کو عالمی سطح پر لا کھڑا کیا ہے۔ چاہے وہ معاشیات ہو، میڈیکل، انجینئرنگ، یا انفارمیشن ٹیکنالوجی؛ ہر شعبہ عالمی معیار کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری جامعات میرٹ کا بین الاقوامی معیار حاصل کرنے میں ناکام ہیں، پاکستانی طلباء اور پروفیشنلز کو عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے وہی معیار درکار ہے جو دنیا کی بہترین جامعات میں دیا جاتا ہے۔ ہم نے تعلیم و تحقیق میں سرمایہ کاری نہیں کی، ہمیں صرف انفراسٹرکچر نہیں، بلکہ اساتذہ کی تربیت، جدید تحقیق، اور انڈسٹری-اکیڈیمیا رابطہ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ تعلیم میں نجی و سرکاری شعبے کا کرداربھی تسلی بخش نہیں ہے، ان دونوں شعبوں کو معیار کی بہتری کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا، محض تعداد بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کی اعلیٰ تعلیم نے دو دہائیوں میں بہت طویل سفر طے کیا ہے، مگر یہ سفر ابھی ادھورا ہے۔ ہمیں اپنی جامعات کو عالمی معیار کی تحقیق اور تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا۔ پاکستانی ڈگری کو دنیا بھر میں قابلِ قدر بنانا ہے تو ہمیں تعلیم و تحقیق کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہوگا۔ کیونکہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم "جامعات کی تعداد سے زیادہ معیار تعلیم” پر توجہ دیں۔
Title Image by Elly from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |