بھارت سے پاکستانیوں کا انخلا
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ پیچیدگی اور کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک دونوں ممالک کے مابین سرحدی تنازعات، مذہبی تقسیم، سیاسی مفادات اور جنگی محاذ آرائیوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں متاثر کی ہیں۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ میں جب بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا، سب سے زیادہ متاثر عام شہری ہی ہوئے ہیں، خصوصاً وہ افراد جن کے رشتے دونوں ملکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
1947ء میں تقسیم ہند کے وقت ایک وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ لاکھوں لوگ ایک نئی سرحد کے آر پار گئے، مگر بہت سے خاندان بٹ گئے۔ کئی پاکستانی شہریوں نے بھارت میں اور بھارتی شہریوں نے پاکستان میں شادیاں کیں۔ اس کے بعد کے عشروں میں دونوں ممالک نے مختلف اوقات میں ویزہ پالیسیوں میں نرمی کی تاکہ ایسے خاندانوں کو باہم رابطہ رکھنے میں آسانی ہو۔ لیکن جب بھی سیاسی یا جنگی کشیدگی بڑھی، یہ روابط سب سے پہلے متاثر ہوئے۔
1971ء کی جنگ کے دوران، کارگل جنگ (1999ء)، پلوامہ حملہ (2019ء) اور حالیہ سفارتی تنازعات میں ہمیشہ یہی حادثہ دہرایا گیا کہ عام شہری، خصوصاً شادی شدہ خاندان، شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔
بھارت نے حال ہی میں پاکستانی شہریوں کو ملک چھوڑنے کے لیے مہلت دی، جو اب ختم ہوچکی ہے۔ تین روزہ مدت کے دوران 536 پاکستانی بھارت سے واپس اپنے وطن لوٹ آئے، جبکہ پاکستان سے 849 بھارتی شہری بھارت روانہ ہوئے۔ یہ اعداد وشمار دونوں ممالک کے درمیان موجود انسانی روابط کی گہرائی اور وسعت کا اظہار کرتے ہیں۔
لانگ ٹرم ویزہ رکھنے والے پاکستانی اور بھارتی شہریوں کا معاملہ اب بھی حل طلب ہے۔ بارڈر کے دونوں جانب درجنوں خاندان، امیدوں اور مایوسیوں کے درمیان معلق ہیں۔ اٹاری اور واہگہ بارڈرز پر موجودہ مناظر، جہاں مائیں، بچے اور شوہر ایک دوسرے سے ملنے یا بچھڑنے کے منتظر ہیں، یہ واقعات اس بات کا کربناک ثبوت ہیں کہ ریاستی پالیسیاں جب جذبات سے خالی ہوں تو انسانی رشتے کس قدر اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
بھارت نے سرحدی علاقوں، خصوصاً بھارتی پنجاب میں کسانوں کو دو روز میں فصلیں کاٹ کر زمین خالی کرنے کا حکم دیا ہے، جو کہ کسی ممکنہ جنگی تیاری کا اشارہ ہے۔ یہ اقدام بتاتا ہے کہ موجودہ صورتحال محض سفارتی کشیدگی نہیں بلکہ عملی خطرات بھی پیدا کرچکی ہے۔ اس طرح کی تیاریوں کا پہلا نشانہ ہمیشہ سرحدی عوام اور معصوم شہری بنتے ہیں، جو روزمرہ کی زندگی میں پہلے ہی کئی محرومیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ لمحہ دونوں حکومتوں کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ وہ شہری جن کے خاندان سرحد کے آر پار ہیں، ان کے لئے انسانی بنیادوں پر خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لانگ ٹرم ویزا رکھنے والے شہریوں کے لئے مستقل حل نکالنا، عارضی ویزہ پابندیوں میں نرمی کرنا اور خاندانوں کو بچھڑنے سے بچانا ایک بنیادی انسانی تقاضہ ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جہاں سیاسی مفادات سے بڑھ کر انسانیت کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانیوں کو بھارت چھوڑنے کی دی گئی مہلت کے خاتمے نے ایک بار پھر ہمیں یاد دلایا ہے کہ جنگی جنون، سیاسی تعصبات اور قومی مفادات کی دوڑ میں سب سے زیادہ نقصان عام انسان اٹھاتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ دونوں ممالک اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف بڑھیں، ایک ایسا مستقبل جہاں سرحدیں انسانی رشتوں کو توڑنے کے بجائے جوڑنے کا ذریعہ بنیں۔
Title Image by TyliJura from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |