انڈیا کو منہ توڑ جواب دیں گے: سینٹ کی متفقہ قرارداد
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
پاکستانی سینٹ کی جانب سے بھارتی جارحیت کے خلاف منظور کردہ متفقہ قرارداد ایک ایسا تاریخی دستاویز ہے جو نہ صرف وطن عزیز کے سیاسی و عسکری اتحاد کا آئینہ دار ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن، خودمختاری اور بین الاقوامی معاہدات کے احترام کے باب میں ایک فیصلہ کن مؤقف بھی ہے۔ یہ قرارداد ایک ایسی سفارتی و سیاسی پیش رفت ہے جو نہ صرف پاکستان کے اندرونی استحکام کی علامت ہے بلکہ اس قرارداد میں عالمی برادری کو ایک واضح پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاکستان اپنی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
1960ء میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور عالمی ضامنوں کے دستخط کردہ معاہدہ ہے۔ بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل کرنے کی کوششیں نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں امن و امان کے لیے ایک سنگین خطرہ بھی ہیں۔ پاکستان بارہا یہ واضح کرچکا ہے کہ پانی کی بندش جنگ کے مترادف ہو گی اور حالیہ سینٹ کی قرارداد میں بھی اسی مؤقف کی توثیق کی گئی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ہونے والے سینٹ اجلاس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی پیش کردہ قرارداد کا متفقہ طور پر منظور ہونا قومی سیاسی قیادت کی بالغ نظری، حب الوطنی اور دشمن کے خلاف یکجہتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کی تائید، شیری رحمان کی جاندار تقریر اور ایمل ولی کی معتدل مگر مؤثر باتیں قومی بیانیے کی تکمیل کرتی ہیں۔
قرارداد میں چند کلیدی نکات پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کا پہلگام واقعے سے کوئی تعلق نہیں، بھارت کی بدنیتی پر مبنی مہم جوئی ناقابل قبول ہے۔ بھارت کی دہشتگردانہ کارروائیوں پر اسے بین الاقوامی سطح پر جوابدہ بنایا جائے۔ سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی ناقابل قبول ہے، اور پانی کو پاکستان کی “لائف لائن” قرار دیا گیا ہے۔ بھارت کی آبی دہشتگردی اور خطے کے امن میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر چیلنج کیا جائے گا۔
وزیر خارجہ کی جانب سے پیش کردہ تجاویز میں بھارت کے خلاف سخت ترین سفارتی اقدامات شامل ہیں جن میں فضائی حدود اور واہگہ بارڈر کی فوری بندش، سارک ویزا سکیم کے تحت موجود بھارتی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم، بھارتی دفاعی اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینا اورشملہ معاہدے کی حیثیت پر سوال اٹھانے کی وارننگ شامل ہیں۔
یہ تمام اقدامات ”جیسا کو تیسا”کے اصول پر مبنی ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی نوع کی کمزوری یا پسپائی دکھانے کو تیار نہیں۔ علاقائی و عالمی تناظر میں اس قرارداد کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف بھارت کو ایک ٹھوس پیغام دیا گیا ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک، بالخصوص چین، ایران اور افغانستان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ریاست ضرور ہے لیکن وہ اپنی خودمختاری اور سالمیت کے لیے ہر حد تک جانے کی صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ سے نائب وزیراعظم کا رابطہ اس تناظر میں اہم پیش رفت ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں توازن اور بصیرت کا اظہار ہے۔ ہم ایک متحد، پُراعتماد اور نظریاتی پاکستان کے باسی ہیں۔ سینٹ کی قرارداد پاکستان کی سیاسی قیادت، مسلح افواج، سفارتکاری اور عوام کے درمیان ایک غیر متزلزل اتحاد کی علامت ہے۔ اس سے نہ صرف بھارت کو واضح پیغام گیا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی یہ باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی قسم کی مہم جوئی، الزام تراشی یا معاہدہ شکنی کو برداشت نہیں کرے گا۔ اگرچہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن اگر دشمن نے جارحیت کی تو پاکستان کا جواب پہلے سے زیادہ تگڑا ہو گا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |