گھکھ تھانہ نیلہ کے علاقے میں دل ہلا دینے والا واقعہ
سوشل میڈیا بہت بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ اب کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی خبر کو بھی چھپانا مشکل ترین ہو گیا ہے۔لیکن حیرانی ہے اتنی بڑی خبر اتنے لمبے عرصہ تک کیوں اور کیسے چھپی رہی؟ اس ہولناک اور انسانیت سوز خبر پر یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اس کے باوجود اس واقعہ کے بارے ایک اور شرمناک اور قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ ہزاروں افراد کے اس قصبہ میں مجرمان اتنے زیادہ طاقتور تھے کہ پورے گاؤں میں کسی ایک فرد کا بھی ضمیر نہ جاگا کہ تمام اہل قصبہ کو اتنے بڑے جرم پر خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ ایک حدیث نبوی ﷺ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اعلی درجے کا ایمان یہ ہے کہ ظلم کو ہاتھ اور تلوار سے روکا جائے، دوسرے درجے کا ایمان یہ ہے کہ ظلم کو زبان سے روکا جائے اور تیسرے اور آخری کم ترین درجے کا ایمان یہ ہے کہ ظلم کے خلاف ہاتھ اور زبان سے جہاد نہیں کر سکتے تو اسے دل میں برا سمجھا جائے۔ اس واقعہ پر دوسرے درجہ کے ایک شخص نے زبان کی بجائے قلم سے جہاد کیا اور پولیس کو اس المناک واقعہ کے بارے میں خط لکھ دیا۔
پہلی بار رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ خبر بی بی سی اردو پر رپورٹ ہوئی اور اب سوشل میڈیا پر آ گئی ہے۔ معلوم نہیں کہ تا دم تحریر اخبارات پر اسے کوریج ملی ہے یا نہیں؟ راقم الحروف اس واقعہ کو جوں کا توں رپورٹ کر رہا ہے۔
آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج سے نیچے اتریں تو آپ کو دائیں جانب تھانہ نیلہ ملے گا، اس تھانے میں یکم فروری کو ایک گم نام خط موصول ہوا جس میں انکشاف کیا گیا کہ گھکھ گاؤں کی ایک حویلی میں ایک لڑکی اور لڑکا دو سال سے بند ہیں، کوئی خاتون ہر دوسرے دن کھڑکی کے ذریعے انھیں کھانا دے جاتی ہے، یہ دونوں آخری سانسیں لے رہے ہیں، یہ خط بارہ دن پولیس کی فائلوں میں گردش کرتا رہا، بہرحال 12فروری کو پولیس گاؤں پہنچ گئی، گھکھ تھانہ نیلہ سے 25 کلومیٹر دور ہے، جنرل فیض حمید کی مہربانی سے گاؤں تک سڑک بن گئی تھی، پولیس حویلی تک پہنچی تو اسے حویلی کے ایک کمرے میں بستر پر ایک لڑکی کی نو دس دن پرانی لاش ملی۔ لاش کے اوپر رضائیاں اور دریاں پڑی تھیں، لڑکی کی موت بظاہر بھوک اور سردی کی وجہ سے ہوئی تھی، وہ مکمل طور پر ہڈیوں کا ڈھانچہ تھی، اس کا کل وزن 10 سے 15 کلو تھا، کمرے میں روٹی کے ٹکڑے بھی پڑے تھے۔ جب کہ یہ بدقسمتی لڑکی اس کمرے کے ایک کونے کو واش روم کے طور پر بھی استعمال کرتی رہی تھی جو ثابت کرتا تھا کہ وہ اسی چھوٹے سے کمرے میں قید تھی جس سے اسے ایک عرصہ تک باہر نہیں نکلنے دیا گیا تھا۔ اس لڑکی کے جسم پر پھٹے پرانے اور بدبودار کپڑے تھے جن سے محسوس ہوتا تھا کہ اس نے سال ڈیڑھ سال سے کپڑے نہیں بدلے، بال اور ناخن بھی بڑھے ہوئے تھے اور لڑکی نے مدت سے غسل بھی نہیں کیا تھا،
اس تھانہ کی پولیس نے دوسرا کمرہ کھلوایا تو اس سے ایک نوجوان لڑکا ملا، وہ پولیس کو دیکھ کر چھپنے کی کوشش کرنے لگا، پولیس نے بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا کی وہ اس کی مدد کرنے کے لیے آئی ہے، لڑکے کی حالت بھی خستہ تھی، جسم سے بدبو آ رہی تھی، بال گندے اور لمبے تھے اور ان میں جوئیں پڑی ہوئی تھیں، اس کا جسم بھی ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا، وہ نقاہت سے کھڑا تک نہیں ہو پا رہا تھا، وہ بھی اسی چھوٹے سے کمرے کو رفائے حاجت کے طور پر بھی استعمال کرتا رہا تھا، اپنی بہن کے کمرے کی طرح اس کا کمرہ بھی انتہائی خراب اور گندہ تھا، بستر بھی غلیظ تھا، پولیس فوری طور پر لاش اور نوجوان کو تھانے لے گئی۔ نوجوان کو گرم پانی سے غسل دیا گیا، بال اور ناخن تراشے گئے اور اسے نئے کپڑے پہنائے گئے، اسے اچھی خوراک بھی دی گئی، یہ برسوں کا بھوکا تھا لہٰذا یہ جانوروں کی طرح خوراک پر پل پڑا، نوجوان کی طبیعت ذرا سی سنبھلی تو اس نے یہ ہولناک کہانی سنائی۔
ان دونوں بہن بھائیوں کے والد کا نام چوہدری زرین تاج تھا، وہ شریف آدمی تھے، گاؤں کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے، دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا، والدہ کا انتقال ان سے پہلے ہو چکا تھا، نوجوان کا نام حسن رضا ہے، اس کی عمر 32 سال ہے، لڑکی اس کی بہن تھی اور اس کا نام جبین تھا، عمر 25 سال تھی، لڑکی نے بی ایس سی کر رکھا تھا اور میٹرک میں اس نے راولپنڈی ریجن میں ٹاپ کیا تھا، وہ انتہائی محنتی اور ذہین بچی تھی، دونوں بہن بھائیوں کو وراثت میں 950کنال زمین ملی، زمین ذرخیز اور قیمتی تھی، والدین کے بعد بہن بھائی اکیلے رہ گئے۔ ان کے تایا کے بیٹے تعداد اور اثرورسوخ میں زیادہ تھے لہٰذا تایا زاد نے اپنے بھائیوں کی مدد سے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا اور دونوں بہن بھائیوں کو پاگل مشہور کر کے حویلی میں بند کر دیا، یہ علاج کے نام پر انھیں ایسی دوائیں بھی دیتا رہتا تھا جس سے ان کا ذہنی توازن بگڑ جائے یا وہ فوت ہو جائیں، دونوں بہن بھائیوں کو دو سال دو مختلف کمروں میں بند رکھا گیا، انھیں کپڑے دیئے جاتے تھے اور نہ گرمیوں میں پنکھا اور سردیوں میں رضائی، کھڑکی سے ان کے کمرے میں روزانہ ایک ایک روٹی اور تھوڑا سا سالن اندر پھینک دیا جاتا تھا، ملزم بااثر تھے، چنانچہ گاؤں کے لوگوں نے ڈر کر ہونٹ سی لیئے اور خاموشی سے یہ ظلم دیکھتے رہے، اس دوران زمین تایا زاد بھائیوں کے قبضے میں رہی، یہ اس پر کھیتی باڑی بھی کراتے رہے اور انھوں نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بھی بیچ دیئے۔ لڑکی جبین طویل ظلم برداشت نہ کر سکی، یہ فروری کے شروع میں فوت ہو گئی اور اس کی لاش 9دن کمرے ہی میں پڑی رہی جب کہ لڑکا زندگی کی سرحد پر بیٹھ کر موت کا انتظار کرتا تھا، یہاں تک میرے نبی محمدالرسول ﷺ کی حدیث مبارکہ ﷺ نے کام کر دکھایا اور گاؤں کے کسی شخص کو ان پر رحم آ گیا اور اس نے تھانے میں گم نام خط لکھ دیا، بہن بھائیوں کی دوسری خوش نصیبی یہ رہی کہ نیا ڈی پی او احمد محی الدین ٹرانسفر ہو کر چکوال آ گیا، یہ ڈی پی او کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکر بھی تھا۔
احمد محی الدین کے نوٹس میں جب خط آیا تو اس نے فوری طور پر پولیس ایکشن کا حکم دے دیا۔ ویل ُڈن، ڈی ایس پی صاحب! یوں دونوں بہن بھائی مل گئے، بھائی زندہ مل گیا اور بہن کی لاش مردہ میت ملی! اللہ اکبر! یا میرے انسانیت پر رحم فرما۔ ایسے واقعات بھی انسانی معاشرے میں ہو سکتے ہیں اور انسان اتنے بھی سفاک اور درندے ہو سکتے ہیں؟ الحفیظ و الامان! ڈی پی او صاحب اب علاقے کے بااثر لوگوں کا دباؤ برداشت کر رہا ہے، نوجوان حسن رضا پولیس کی حفاظت میں ہے، یہ ٹراما کا شکار ہے، پولیس اس کا علاج بھی کرا رہی ہے اور اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے، یہ اس واقعے کا واحد گواہ اور مدعی ہے۔ اگر خدانخواستہ اسے کچھ ہو گیا تو پھر ملزمان بڑی آسانی سے بری ہو جائیں گے، پولیس نے پہلے مرکزی ملزم اور پھر اس کے دونوں بھائیوں کو گرفتار کر لیا، ملزم اس وقت ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہیں۔
چکوال کے اس واقعے کے دو ورژن ہیں، پہلا ورژن بیان کر دیا گیا، اور خبر سامنے آ گئی تو میڈیا گھکھ گاؤں پہنچ گیا، رپورٹرز اور کیمرے دیکھ کر گاؤں کے لوگوں نے گھروں کے دروازوں پر باہر سے تالے لگائے اور چھپ کر اندر بیٹھ گئے، اس کا مطلب ہے لوگ ملزموں کے اثر میں ہیں اور کسی میں ان کے خلاف بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر ملزموں پر غلط الزام تھا تو لوگوں کو گواہی دینی چایئے تھی اور اگر الزام سچا تھا تو بھی لوگوں کو بولنا چایئے تھا لیکن لوگ غائب ہو گئے، ان کا غائب ہو جانا بھی ایک ثبوت ہے۔ دوسرا ورژن یہ دونوں بہن بھائی پاگل ہیں، یہ لوگوں پر حملے کر دیتے تھے، پتھر بھی مارتے تھے اور ڈنڈوں سے بھی لوگوں پر حملہ کرتے تھے۔ لہٰذا ان کے کزنز نے انھیں حویلی میں بند کر کے ان کا علاج شروع کرا دیا، یہ ان کی نگرانی اور دیکھ بھال بھی کرنے لگے، یہ بات بھی درست ہو سکتی ہے لیکن یہاں تین سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ذہنی مریض تھے تو پھر لڑکی نے میٹرک میں پوزیشن کیسے لے لی اور یہ اچھے نمبروں سے بی ایس سی کیسے کر گئی۔ دوسرا اگر چچا زاد بھائی ان کا علاج کر رہے تھے یا ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے تو پھر یہ کس قسم کا علاج اور نگرانی تھی جس میں دونوں کو حویلی کے کمروں میں بند کر دیا گیا تھا اور انھیں کپڑے اور ضروریات کا سامان تک نہیں دیا جا رہا تھا، یہ کمرے ہی میں رفائے حاجت کرتے تھے، دو سال پرانے، گندے اور بدبودار کپڑے پہنتے تھے اور انھیں کھڑکی سے خشک روٹی اور تھوڑا سا سالن ملتا تھا اگر یہ علاج اور کیئر ہے تو پھر ظلم اور زیادتی کیا ہو گی؟ آپ لڑکی کی لاش کو بھی اس سوال میں شامل کر لیں، لڑکی کو مرے ہوئے سات سے نو دن ہو گئے تھے لیکن کیئر اور علاج کرانے والوں نے اس کی تدفین مناسب سمجھی اور نہ انھیں اس کی موت کی اطلاع ملی۔
ان بے چاروں کو غسل تک نہیں کرایا جاتا تھا اور ان کے بال اور ناخن بھی نہیں تراشے جاتے تھے، کیا اس کو کیئر کہا جا سکتا ہے؟ اور تیسرا سوال علاج اور اس کیئر کے دوران ان کی جائیداد اور زمین کس کے قبضے میں رہی، وہ کون تھا جس نے ان کے 65 لاکھ روپے کے درخت بیچ دیئے اور ان کی 950 کنال زمین پر کاشت کاری کرتا رہا۔
میرا خیال ہے اگر ان سوالوں کے جواب تلاش کر لئے جائیں تو کیس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ایک اور بات کا اضافہ ضروری ہے، آپ کسی بھی نارمل شخص کو سال چھ ماہ کسی کمرے میں بند کر دیں تو وہ پاگل ہو جائے گا۔ لہٰذا ملزمان کے لئے حسن رضا کو پاگل ثابت کرنا بہت آسان ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اچھا وکیل کر کے اس بے چارے مظلوم کو عدالت میں پاگل ثابت کر کے رہا ہو سکتے ہیں۔
ہم اگر اس واقعہ کا تجزیہ کریں تو تین چیزیں سامنے آتی ہیں، اول ہم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہیں یہاں انسانی شکل میں ایک سے بڑھ کر ایک درندہ پھر رہا ہے اور جب اس کے اندر سے جانور باہر آتا ہے تو یہ جنگلوں کو بھی شرما دیتا ہے۔ دوم، والدین صاحب جائیداد اور رئیس ہوں تو پھر انھیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی تگڑا بنانا چاہئے، حسن رضا اور جبین کے والد کو اگر احساس ہوتا تو یہ ان کے سروں پر کوئی ایسا آسرا چھوڑ جاتا جو ان کی حفاظت کرتا رہتا۔ ہو سکتا ہے کہ والد اپنے بھتیجوں کے عزائم کا ادراک نہیں کر سکا ہو گا جس کے نتیجے میں اس کی اولاد کزنز کے ہاتھوں ذلیل ہو کر رہ گئی اور سوم ہماری پولیس اور حکومت کے سسٹم میں بے شمار خرابیاں ہیں، ہم آج تک کوئی ایسی ہیلپ لائین، پورٹل یا کوئی ایسا ایڈریس تخلیق نہیں کر سکے جہاں لوگ گم نام خط لکھ کر دائیں بائیں ہونیوالے مظالم یا جرائم کی اطلاع دے سکیں۔
میں اس کالم کے توسط سے پنجاب کی وزیراعلٰی محترمہ مریم نواز اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب کی خدمت میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہچانے کے لئے اس کیس کی خود نگرانی کریں۔ وزیراعلی پنجاب سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ فوری طور پر جبین کے نام سے ایک ہیلپ لائین قائم کر دیں اور تمام موبائل فون کمپنیوں کو پابند کر دیں کہ یہ ہیلپ ایپ ان کے پیکیج کا حصہ ہو گی، حکومت یہ بھی ڈکلیئر کر دے کہ اس ہیلپ لائین پر فون کرنے والے شخص کا نام، نمبر اور پتہ ہمیشہ راز میں رہے گا، اسے کسی جگہ گواہی کے لئے بھی نہیں بلایا جائے گا تاکہ لوگ ظلم کے خلاف بے خوف ہو کر کھڑے ہو سکیں۔
Title Image by PublicDomainPictures from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |