علامہ اقبال کی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘
(یوم وفات پر خصوصی تحریر)
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ فروری 1912ء میں لکھی گئی تھی جو اقبال کے ابتدائی فکری دور کا ایک اہم شعری تخلیق ہے۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر کی سیاسی، سماجی اور فکری فضا اضطراب و پریشانی کا شکار تھی۔ سلطنتِ عثمانیہ زوال پذیر تھی، ہندو مسلم اتحاد کی حقیقتیں بے نقاب ہو رہی تھیں اور مسلمانوں میں اپنی شناخت و خودی کی بیداری کا شدید تقاضا جنم لے رہا تھا۔ ایسے میں علامہ اقبال کی یہ نظم قومی شعور کو جھنجھوڑنے، بے عملی، رومانیت اور محض جمالیاتی مشق کو تنقید کا نشانہ بنانے کی ایک زندہ مثال ہے۔
اقبال کی یہ نظم مکالماتی اور تمثیلی انداز میں تحریر گئی ہے جس میں شاعر اور شمع کے درمیان فکری مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ شمع اردو شاعری میں ابتدا ہی سے عشق و وفا، ایثار، سوز و گداز اور خودسوزی کا استعارہ رہی ہے۔ اقبال اس قدیم علامت کو جدید قومی اور فکری شعور کے تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ یہاں شاعر، جو خود کو شمع جیسا سمجھتا ہے، شمع کی فطری تپش و سوز کے مقابلے میں محض نمائشی روشنی ہے۔
نظم کے پہلے حصے میں شاعر اپنی ویرانی، بے اثری اور جذبے کی ناکامی کا اظہار کرتا ہے جیسے:
”در جہاں مثلِ چراغِ لالہَ صحراستم
نے نصیبِ محفلے، نے قسمتِ کاشانہ اے‘‘
شاعر کا یہ شعر علامہ کی اس شکایت کی علامت ہے کہ اس کے فن کو وہ قبولیت نہیں ملی جس کا وہ متمنی تھا۔ وہ اپنے آپ کو بے کار، بے مصرف اور بے اثر محسوس کرتا ہے۔
جب شمع گویا ہوتی ہے تو وہ شاعر کے رویے اور اس کے فکری تضاد کو بے نقاب کرتی ہے۔ اس مکالمے کا نکتۂ عروج وہ لمحہ ہے جب شمع کہتی ہے:
”میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا‘‘
یہاں شاعر کا سوز، جو خودنمائی پر مبنی ہے، محض ایک فریب ہے، جبکہ شمع کا سوز، اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ یہاں علامہ اقبال حقیقی اور جعلی جذبے کے فرق کو بڑی شدت سے اجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
نظم کا دوسرا نصف محض ایک فکری مکالمہ ہی نہیں بلکہ ایک شدید قسم کی تنقید بھی ہے۔ شاعر کی زبان میں دراصل اُس وقت کے مسلمان شاعروں، دانشوروں اور رہنماؤں پر طنز کیا گیا ہے جو محض رومان پرستی اور جمالیاتی اظہار کو کافی سمجھتے تھے مثلاً:
”سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا‘‘
یہاں "ساقی” کا لفظ شاعر کا استعارہ ہے اور "پیمانہ بے صہبا” علامت ہے کہ شاعر کے پاس قوم کو دینے کے لیے کوئی حقیقی، روحانی یا عملی مواد موجود نہیں ہے۔
اقبال کہتے ہیں:
”کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بتخانہ ہے‘‘
یہ ایک طنز بھی ہے جو اس تضاد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسلم معاشرہ دین کی حرارت سے محروم ہوچکا ہے۔
یہ نظم ایک آئینہ ہے جس میں علامہ اقبال اپنے عہد کے شعراء، دانشوروں اور خود اپنے اندر کے شاعر کو پرکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اقبال بتاتے ہیں کہ شاعری محض الفاظ کی بازی گری ہی نہیں بلکہ ایک قومی، اخلاقی اور روحانی ذمے داری بھی ہے۔ شمع یہاں ایثار، سوز و قربانی کا استعارہ ہے اور شاعر خودنمائی، بے عملی اور سطحیت کا نشان ہے۔
آخری اشعار میں علامہ اقبال اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ قوم کا شعور اس سطح پر نہیں رہا کہ وہ سچی روشنی کو پہچان سکے مثلاً:
”انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا”
”شمع اور شاعر‘‘ علامہ اقبال کی شاعری کا وہ نکتہ ہے جہاں سے ان کے فکری انقلاب کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ یہ نظم ایک ادبی شاہکار بھی ہے اور فکری منشور بھی۔ اس نظم کے ذریعے اقبال اپنے قاری کو فکری خوداحتسابی کی دعوت دیتے ہیں، خودی کی حرارت سے آشنا کرتے ہیں، اور اس امر پر زور دیتے ہیں کہ سچا شاعر وہی ہے جس کی شاعری میں سوزِ دروں ہو، جو قوم کی رہنمائی کر سکے، نہ کہ صرف تالیاں بٹورنے کے لئے نغمہ سرائی کرے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے اقبال کی نظم شمع اور شاعر پیش خدمت ہے۔
٭
شمع اور شاعر
٭
شاعر
دوش می گفتم بہ شمعِ منزلِ ویرانِ خویش
گیسوئے تو از پرِ پروانہ دارد شانہ اے
در جہاں مثلِ چراغِ لالہَ صحراستم
نے نصیبِ محفلے، نے قسمتِ کاشانہ اے
مدتے مانندِ تو من ہم نفس می سوختم
درطوافِ شعلہ اَم بالے نہ زد پروانہ اے
می طپد صد جلوہ در جانِ امل فرسود من
بر نمی خیزد ازیں محفل دلِ دیوانہ اے
از کجا ایں آتشِ عالم فروز اندوختی
کرمکِ بے مایہ را سوزِ کلیم آموختی
٭
شمع
٭
مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل
لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک
شبنم افشاں تو کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا
گل بدامن ہے مری شب کے لہو سے مری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
یوں تو روشن ہے مگر سوزِ دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالہَ صحرا ترا
معانی:: سوزِ دروں : دل کا سوز و گداز ۔
سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا
اور ہے تیرا شعار، آئینِ ملت اور ہے
زشت رُوئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بتخانہ ہے
کس قدر شوریدہ سَر ہے شوقِ بے پروا ترا
معانی:: پہلو: دل ۔ شوریدہ سر: دیوانہ، پاگل ۔
قیس پیدا ہوں تری محفل میں ، یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
اے دُرِ تابندہ اے پروردہَ آغوشِ موج
لذّتِ طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا
اب نوا پیرا ہے کیا، گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنّم، نغمہ بے موسم ترا
تھا جنھیں ذوقِ تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدہَ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ! جب گلشن کی جمیعت پریشاں ہو چکی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑ پ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصودِ ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائیِ سوزِ تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں ، تو گرمِ نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آوازِ درا ہو یا نہ ہو
شمعِ محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے
رشتہَ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوق بے پروا گیا، فکرِ فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گردِ شمع پروانے رہے
خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ میخانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
شہر اُن کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہو گئیں
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذرِ برہمن ہو گئیں
دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
خود تجلّی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امیدِ نورِ ایمن ہو گئیں
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابندِ نشیمن ہو گئیں
وسعتِ گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلیاں آسودہَ دامانِ خرمن ہو گئیں
دیدہَ خونبار ہو منت کشِ گلزار کیوں
اشکِ پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں
شامِ غم لیکن خبر دیتی ہے صبحِ عید کی
ظلمتِ شب میں نظر آئی کرن امید کی
مژدہ اے پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز
بعد مدّت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقدِ خودداری بہائے بادہَ اغیار تھی
پھر دُکاں تیری ہے لبریزِ صدائے ناوَ و نوش
ٹوٹنے کو ہے طلسمِ ماہ سیمایانِ ہند
پھر سلیمیٰ کی نظر دیتی ہے پیغامِ خروش
پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز
دل کے ہنگامے مَے مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پیرا ہو، کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے ، گر توانی دار گوش
کہہ گئے ہیں شاعری جزویست از پیغمبری
ہاں سنا دے محفلِ ملت کو پیغامِ سروش
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہَ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوزِ جوہرِ گفتار سے
رہزنِ ہمت ہوا ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تو، گلشن میں مثلِ جو ہوا
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمیعت بھی تھی
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر، بڑی دولت ہے یہ
زندگی کیسی جو دل بیگانہَ پہلو ہوا
فرد، قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
پردہَ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ
یعنی اپنی مے کو رسوا صورتِ مینا نہ کر
خیمہ زن ہو وادیَ سینا میں مانندِ کلیم
شعلہَ تحقیق کو غارت گرِ کاشانہ کر
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجامِ ستم
صرفِ تعمیرِ سحر خاکسترِ پروانہ کر
تو اگر خوددار ہے منت کشِ ساقی نہ ہو
عینِ دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
خاک میں تجھ کو مقدّر نے ملایا ہے اگر
تو عصا اُفتاد سے پیدا مثالِ دانہ کر
ہاں ! اسی شاخِ کہن پر پھر بنا لے آشیاں
اہلِ گلشن کو شہیدِ نغمہَ مستانہ کر
اس چمن میں پیروِ بلبل ہو یا تلمیذ گل
یا سراپا نالہ بن جا، یا نوا پیدا نہ کر
کیوں چمن میں بے صدا مثلِ رمِ شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تو
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہَ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آ کر کوچہَ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
وائے نادانی، کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
بے خبر تو جوہرِ آئینہَ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے
کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تو
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے
سینہ ہے تیرا ا میں اس کے پیام ناز کا
جو نظامِ دہر میں پیدا بھی ہے، پنہاں بھی ہے
ہفت کشود جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ سامان بھی ہے
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہِ فاراں کا سکوت
اے تغافل پیشہ، تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے
دل کی کیفیت ہے پیدا پردہَ تقریر میں
کسوتِ مینا میں مے مستور بھی، عریاں بھی ہے
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوہَ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں بادِ بہار
نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
…
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |