ڈاکٹر وحید الزماں طارق: ایک ہمہ جہت شخصیت کا زندہ حوالہ
تحریر علامہ عبد الستار عاصم
ڈاکٹر وحید الزماں طارق سے تعلق محض تعارف یا عقیدت کا رشتہ نہیں، بلکہ یہ ایک قلبی واردات اور روحانی انسلاک کا نام ہے۔ ان کی شخصیت ایسی طلسماتی کشش رکھتی ہے کہ جو بھی ان کی قربت میں آتا ہے، اس کے دل و دماغ پر ایک ان مٹ نقش چھوڑ جاتی ہے۔
جب بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، ایسا محسوس ہوا جیسے علم و حکمت کے چشمے رواں دواں ہیں۔ ہر نشست ایک نادر موقع بن گئی کہ کچھ نیا سیکھا جائے، دل کی دنیا میں خوشی کی کونپلیں کھلیں اور روح تازگی اور سرشاری سے ہمکنار ہو۔ ان کے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ گویا ایک قیمتی موتی ہے، جسے دل کے خزانے میں سنبھال کر رکھا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بارے میں قلم اٹھاتے ہوئے عجب سی طمانیت دل و جاں کو گھیر لیتی ہے۔ ایک غیر معمولی شخصیت کا تذکرہ کرنا کسی سعادت سے کم نہیں، کیونکہ وہ صرف اپنے نام کی خوشبو ہی نہیں رکھتے، بلکہ جن جن شعبوں سے وابستہ رہے، ان میں اپنے خلوص، دیانت اور قابلیت کی ایسی خوشبو بکھیر دی کہ وہ میدان نیک نامی سے معطر ہو گئے۔
چاہے فوج کا میدان کارزار ہو، طب کا شعبہ ہو یا ادب کا وسیع افق , ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے ہر جگہ اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا۔ وہ ایک ایسے درویش صفت سپاہی ہیں جو دل میں قوم کا درد، ہاتھ میں علم کا چراغ، اور زبان پر حکمت کے موتی سجائے ہوئے ہیں
ان کی زندگی کا سفر ایک ایسے چراغ کی مانند ہے، جو اندھیروں میں جل کر نہ صرف خود روشن ہوتا ہے بلکہ اپنے گرد و نواح کو بھی نور بخشتا ہے۔ وہ گوجرانوالہ کے ایک نہایت چھوٹے اور سادہ سے گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایک عام سرکاری اسکول سے حاصل کی، مگر فطرت نے اُن کے دامن میں جو قابلیت اور بصیرت کے خزانے رکھے تھے، وہ بچپن ہی سے نمایاں ہونے لگے۔
جو کہا جاتا ہے کہ "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات”، تو ڈاکٹر صاحب کی ابتدائی کامیابیاں اسی کہاوت کی عملی تفسیر بن گئیں۔ میٹرک کے امتحان میں طلائی تمغہ حاصل کرنا اور قومی ذہانت کے وظیفے سے نوازا جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قدرت نے اُنہیں عظمت کے راستوں پر گامزن کرنے کا فیصلہ پہلے ہی صادر فرما دیا تھا۔
یہ محض آغاز تھا، آگے چل کر اُنہوں نے علمی فتوحات کا وہ سلسلہ شروع کیا جو انتہائی قابل رشک یے۔ ایم بی بی ایس کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایف آر سی ایس جیسا قابلِ فخر اعزاز بھی اُن کی جھولی میں آیا۔ پھر تو علم کے یہ دریا اس طرح بہنے لگے کہ اُنہوں نے دنیا کی کئی نامور یونیورسٹیوں میں نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ تحقیق و تدریس کے منصب پر بھی فائز رہے۔
اپنی فطری تشنگی علم کے پیشِ نظر اُنہوں نے طب و سائنس کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی وادیوں میں بھی قدم رکھا۔ فارسی و عربی سے اُنہیں لڑکپن ہی سے خاص شغف تھا، چنانچہ فارسی زبان میں ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کی معراج بھی حاصل کی۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ طب اور سائنس کی دنیا اور فارسی شعر و ادب کی بزم دو الگ الگ اور متضاد علمی کہکشائیں ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ان دونوں کہکشاؤں پر قدم رکھا بلکہ اُنہیں اپنے علم و تحقیق کے نکھار سے روشن کر دیا۔ نے ڈاکٹر صاحب نے1980ء میں کمیشن حاصل کیا۔ 1986ء میں پاک آرمی میں میجر کے عہدے پر فائز ہوئے، جبکہ 1993ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک ترقی پائی۔ بعد ازاں 1996ء میں کرنل بنے اور 2002ء میں انہیں بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ وہ پاک فوج سے بطور بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد، وہ متحدہ عرب امارات کے شہر العین میں ایک معروف ہسپتال میں 9 برس سے بطور ڈاکٹر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ۔
وہ ہمہ گیر فکری جہان کا روشن مینارہیں
ان کا نام جب لیا جاتا ہے تو ذہن میں سب سے پہلا حوالہ اقبال شناسی اور فارسی زبان میں ان کی غیر معمولی دسترس کا ابھرتا ہے۔ ان کا مطالعۂ اقبال اتنا عمیق اور ان کی فارسی دانی اتنی رواں ہے کہ وہ اقبال کے افکار و فلسفہ کو صرف سمجھتے نہیں، بلکہ اس کا روحانی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اقبال کی نظموں کی تہہ داری اور ان کے فلسفے کا جو طلسم ڈاکٹر صاحب کے قلب و دماغ میں کھلتا ہے، وہ عام قاری کی رسائی سے بہت بلند ہے۔
شاعرِ مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی فکر انگیز شاعری اور ان کے گہرے فلسفیانہ نظریات کا عرفان ہر کس و ناکس کے نصیب میں کہاں! یہ سعادت معدودے چند صاحبان دانش کو میسر آتی ہے
میری دانست میں یہ منصب انہیں فطرت کی طرف سے عطا کردہ تھا، کیونکہ جس انداز سے وہ فکرِ اقبال کے نکتے سمجھاتے ہیں اور اس کے گہرے اسرار و رموز کو اجاگر کرتے ہیں، وہ محض علمی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک روحانی عنایت کا عکس ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی تصانیف اور تحقیقی مقالات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ اُن کی نگارشات صرف اقبالیات تک محدود نہیں بلکہ فارسی اور اردو شاعری کے میدان میں بھی اُنہوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اُن کے شعری مجموعے ہمارے لیے کسی گراں بہا ارمغان سے کم نہیں۔ یہ تخلیقات نہ صرف علم و ادب کے متوالوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں بلکہ نئی نسل کے لیے فکری تربیت کا سرچشمہ بھی ہیں
انہوں نے حضرت علامہ اقبالؒ کی حیاتِ فکر و فن کا نہایت باریک بینی اور عرق ریزی سے مطالعہ کیا ہے۔ چونکہ اقبالؒ کا بیش تر کلام فارسی زبان میں ہے، اور اُن کے افکار کی گہرائی تک رسائی کیلئے فارسی پر عبور ناگزیر ہے، سو ڈاکٹر صاحب نے فارسی زبان میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کر کے اپنے شوقِ تحقیق کو عملی صورت عطا کی۔
علامہ اقبال جیسی عبقری ہستی کو پیشوا و راہنما ماننا دراصل حکمت و عرفان کے اُس سرچشمے سے وابستگی کا اظہار ہے، جو قلب و روح کی ویرانیوں کو گلزار بنا دیتا ہے۔ یہی نسبت اگر کسی شخص کو حاصل ہو جائے تو وہ اپنے وقت کا "وحیدالعصر” بن جاتا ہے۔ یہی مقام ان کا ہے، جن کے فیوض و برکات نہایت یکتا و منفرد ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے علمی فیضان کی روشن مثالیں چغتائی ریسرچ سنٹر کے اُس آڈیٹوریم میں دیے جانے والے وہ خطبات ہیں، جہاں وہ فکرِ اقبال کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے حاضرین کے دلوں اور اذہان میں اٹھنے والے سوالات اور پیچیدہ علمی مغالطے نہایت سہولت سے، گویا پلک جھپکنے میں رفع فرما دیتے ہیں۔
ان کے خطبات کی گونج محض وطنِ عزیز کی حدود تک محدود نہیں رہی، بلکہ ان کا اثر و رسوخ عالمگیر بن چکا ہے۔ اب اُنہیں تسلسل کے ساتھ یورپ، امریکہ، برطانیہ، مشرقِ وسطیٰ اور دنیا کے دیگر ممالک کی ممتاز جامعات اور علمی اداروں میں مدعو کیا جاتا ہے، جہاں وہ فکرِ اقبال کی گہرائیوں اور معانی کے دریچے وا کر کے عالمِ علم و عرفان کو منور کرتے ہیں۔
لیکن یہ تعارف صرف ان کی شخصیت کا ایک پہلو ہے درحقیقت، وہ ایک کثیرالجہات انسان ہیں، ایک جہانِ معنی جو کئی جہانوں پر محیط ہے۔
وہ صرف شاعر نہیں، سخن فہم بھی ہیں؛ صرف نثر نگار نہیں، نثر کے سحر کو کہانی کی لذت میں ڈھالنے والے ماہر فنکار ہیں۔ ان کا اسلوبِ تحریر ایسا دلنشین ہے کہ قاری محسوس کرتا ہے گویا الفاظ سانس لے رہے ہوں، اور تحریر کے جملے کسی داستان گو کی طرح گوش گزار ہو رہے ہوں۔ ان کی تحریروں میں ایک فطری روانی ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، اور اسے فکری دنیا کے ایک نئے منظرنامے سے آشنا کرتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف الفاظ کے کھلاڑی نہیں، بلکہ تجربات کے امین ہیں۔
بطور ایک سرکاری اور شخصی حیثیت کے، انہوں نے دنیا کے متعدد ممالک کی خاک چھانی ہے۔ ہر سرزمین سے انہوں نے علم کے موتی چُنے، ہر تہذیب سے کچھ نہ کچھ اخذ کیا اور ہر مجلس سے دانائی کا چراغ روشن کیا۔ ان کے مشاہدات میں بین الاقوامی ثقافتوں کی رنگا رنگی ہے، اور ان کی تحریروں میں وہ بصیرت جھلکتی ہے جو صرف سفر کے تجربے سے حاصل ہوتی ہے۔
ان کے قلم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ خشک علمی مباحث کو بھی اس دلآویز انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری بوریت محسوس نہیں کرتا، بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی داستان گو، ماضی کی مجلسوں میں بیٹھا دلکش حکایات سنا رہا ہو۔ ان کی نثر میں شعریت کی لطافت ہے اور ان کی نظم میں فکری گہرائی، یوں گویا ان کے قلم نے دونوں جہانوں کو اپنے سحر میں باندھ رکھا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ڈاکٹر وحید الزماں طارق علم و ادب کے قافلے کے وہ سالار ہیں جنہوں نے اپنی بصیرت سے کئی قلوب کو منور کیا، کئی اذہان کو بیدار کیا، اور فکری افق پر روشنی کی ایسی کرنیں بکھیریں جو رہروانِ علم و حکمت کے لیے مینارۂ نور بن گئیں۔
ان کے فکری سرمائے میں جہاں روایت کی جمالیات ہے، وہیں جدت کا شعور بھی نمایاں ہے۔ وہ ماضی کی عظمتوں کے امین ہیں تو حال کی پیچیدگیوں کے نباض بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں صرف کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں رہتیں بلکہ قاری کے قلب و ذہن میں مستقل جا بسنے والی آواز بن جاتی ہیں
ڈاکٹر وحید الزمان طارق کا اردو شعری مجموعہ زمزمۂ احوال محض شعری اظہار کا مجموعہ نہیں بلکہ اُن کے قلب و روح کی جھلک ہے، جس میں اُنہوں نے نہ صرف شخصیات کے تذکرے کو محبت اور عقیدت سے سنوارا ہے بلکہ اپنے محبوب شہروں کا ذکر بھی اس درجہ والہانہ انداز میں کیا ہے کہ قاری خود کو اُن بستیوں کی گلیوں میں محسوس کرنے لگتا ہے۔
خصوصاً لاہور، جو اُن کے خوابوں کا شہر، اُن کی جوانی کا گہوارہ اور اُن کی ادبی تربیت کی آماجگاہ رہا، اس کا ذکر جس جذباتی وابستگی کے ساتھ کیا گیا ہے، وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے ایک لطیف مگر روشن پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ اُن کی نظم لاہور میں وہ عشق کی حدوں کو چھوتی محبت نظر آتی ہے، جو اپنے شہر کے کوچہ و بازار سے ایک زندہ تعلق کا پتہ دیتی ہے:
"جہاں کے کوچہ و بازار رستے
ہیں پر رونق وہ ہنستے اور بستے
جوانی کی مری معصوم یادیں
مرے جذبات کی موہوم یادیں
اسی گلشن سے وابستہ رہی ہیں
وہاں سو داستانیں ان کہی ہیں”
یہ اشعار صرف یادوں کی مالا نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی منظرنامہ ہے، جس میں لاہور کے رنگ، خوشبو، اور اُس کی علمی فضا ایک ہمہ گیر جذبے کے ساتھ سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
ان کی اردو شاعری پر فارسی شاعری کے اثرات نمایاں ہیں۔خود فرماتےہیں
طارق سخن میں بیدل و غالب کا ہوں مرید
شیراز کے ہے رنگ میں اسلوب دہلوی
ڈاکٹر وحید الزمان طارق کی نثر بھی اُن کی شاعری کی طرح سحر انگیز ہے۔ اُن کی تحریریں محض واقعات کا بیان نہیں بلکہ فکری بالیدگی کا مظہر ہیں۔ عسکری ادبی روایت میں جن فوجی افسران نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے دوران گراں قدر نثری شہ پارے تخلیق کیے، ڈاکٹر وحید کی نثر اُنہی کی روایت کی ایک حسین کڑی ہے۔ ان کے مضامین، تجزیے، اور تحقیقی مقالات ایسے ہیں کہ جنہیں آنے والے دنوں میں ہماری اعلیٰ درسی کتب کا حصہ بننے کا شرف حاصل ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی علمی کاوشوں کو اس مقام تک پہنچنے میں زیادہ وقت درکار نہیں رہا۔ ان کی فارسی شاعری کو تو پہلے ہی یہ اعزاز نصیب ہو چکا ہے۔ اُن کی فارسی نظموں کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ فارسی نے اپنے نصاب میں شامل کر کے اُن کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ یہ صرف ڈاکٹر صاحب کے لیے ہی نہیں بلکہ اردو اور فارسی ادب کے لیے بھی ایک فخر کی بات ہے کہ ہمارے عہد میں ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت موجود ہے جو بیک وقت علم، تحقیق، شاعری، اور فکری بلند نگاہی کا استعارہ بن چکی ہے۔
ڈاکٹر عرفانی کو کون نہیں جانتا
ڈاکٹر عرفانی کا خاندانِ اقبال سے قریبی تعلق محض ایک نسبتِ رسمی نہیں، بلکہ فکری و روحانی رشتہ بھی تھا۔ یہی نسبت ڈاکٹر وحید الزمان طارق کی عرفانی صاحب کے ساتھ بھی ایک گہرا تعلق رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف ڈاکٹر عرفانی کے چہیتے تھے بلکہ قرابت داری کا رشتہ بھی ان دونوں کے درمیان حائل نہ تھا۔
وہ فرماتے ہیں کہ وہ آج بھی اپنے علمی سفر میں انہی کے نقشِ پا پر گامزن ہیں، اور اپنے لیے راہنمائی انہی کے چھوڑے ہوئے چراغوں سے پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عرفانی کے وہ اشعار، جو گویا ایک علمی ورثے کے طور پر اُنہیں عطا ہوئے، ڈاکٹر وحید الزمان طارق کے لیے سرمایۂ افتخار بن گئے ہیں۔ ان اشعار کو وہ نہ صرف دل سے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اپنی علمی حیات کا نشانِ راہ سمجھتے ہیں:
ای پسراعصاب من برہم شدست
قوت فکر و تخیل کم شدست
دل نمی میرد دگر از مرگِ تن
تو مرا دل باش ای فرزندِ من
اے میرے بیٹے! میری قوتِ اعصاب کمزور ہو چکی ہے)
فکر و تخیل کی توانائی بھی ماند پڑ گئی ہے۔
لیکن جان لو! دل کبھی جسمانی موت سے نہیں مرتا،
(بس تو میرا دل بن جا، اے میرے فرزندِ عزیز!
یہ اشعار صرف چند مصرعے نہیں، بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونے والی فکری مشعل ہیں۔ ان میں ڈاکٹر عرفانی کی فکر کی گہرائی اور اپنے عزیز شاگرد و فرزندِ معنوی کے لیے بے پایاں محبت جھلکتی ہے۔ گویا ایک روح نے دوسری روح میں اپنی روشنی منتقل کر دی ہو، تاکہ چراغِ علم و حکمت ہمیشہ روشن رہے۔
ڈاکٹر وحید الزماں طارق ایک ایسا چراغ ہیں جو خود جل کر دوسروں کو روشنی عطا کرتا ہے۔ ان کے فکر کی روشنی دور دور تک پھیلتی ہے اور نہ جانے کتنے تشنہ دل اس سے سیراب ہو رہے ہیں۔ ان کا وجود اپنے اندر علم، تجربے اور روحانیت کی ایک مکمل دنیا سموئے ہوئے ہے۔ ایسے لوگ کم ہی پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے عمل اور کردار سے اپنے عہد کا حوالہ بن جائیں۔
یقیناً، ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ معاشرے کے لیے نعمت خداوندی ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر کرنا صرف تحریر کا حق ادا کرنا نہیں، بلکہ ان کا حقِ محبت بھی ہے۔ ان جیسی شخصیات پر جتنا بھی لکھا جائے، کم ہے، کیونکہ ان کی عظمت کے آسمان کی کوئی حد نہیں، اور ان کے کمالات کا احاطہ کرنا الفاظ کی محدود دنیا سے ماورا ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |