اختر شہاب کی کتاب "الحین بھوم” کا تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
حُسنِ ادب پبلشرز، فیصل آباد نے 259 صفحات پر مشتمل اختر شہاب کی کتاب الحین بھوم شائع کی ہے جو کہ ایک بہترین تخلیقی کاوش ہے۔ اردو ادب میں خود نوشت روداد، سفرنامہ اور جنگی یادداشتوں پر مبنی تحریریں ہمیشہ سے قارئین کی توجہ حاصل کرتی رہی ہیں۔ اختر شہاب کی کتاب "الحین بھوم” بھی اسی روایت کا تسلسل ہے جو خاص طور پر خلیج جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ایک منفرد تصنیف ہے۔ اس کتاب کو مصنف نے پردیسیوں کے نام منسوب کیا ہے، جو اس کی فکری جہت کو مزید گہرائی عطا کرتا ہے۔
اختر شہاب نے پیش لفظ میں جس انداز میں کتاب کے پس پردہ محرکات بیان کیے ہیں، وہ ان کی تحریری سنجیدگی اور مشاہداتی گہرائی کو واضح کرتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں دیکھے گئے تین بڑے جنگی ادوار—1965، 1971، اور خلیج کی جنگ—کا ذکر کرتے ہیں، جو ایک نہایت اہم تاریخی تسلسل پیش کرتا ہے۔ ان کی تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ "الحین بھوم” محض جنگ کی روداد ہی نہیں بلکہ ایک پردیسی کی جدوجہد، مشکلات اور تجربات کا مرقع بھی ہے۔
یہ کتاب جنگی تجربات، بیرون ملک ملازمت کے مسائل اور سماجی روابط پر مبنی ہے جو اردو ادب میں ایک کم دریافت شدہ موضوع ہے۔ اختر شہاب کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی ان کا سادہ، لیکن دلنشین اسلوب ہے، جو قاری کو ابتدا سے آخر تک باندھے رکھتا ہے۔ ان کا طرزِ بیان حقیقت نگاری پر مبنی ہے، جس میں مبالغہ آرائی کے بجائے مشاہدات کو فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر عارف حسین عارف کے مطابق، اختر شہاب کا طرزِ تحریر انتہائی سادہ مگر جاذبِ نظر ہے، جو قاری کو کتاب کے ایک ایک صفحے سے جوڑے رکھتا ہے۔ وہ مستنصر حسین تارڑ اور ابن انشا جیسے ادیبوں کی روایت کو آگے بڑھانے کا ہنر رکھتے ہیں جو اردو ادب کے لیے ایک خوش آئند پہلو ہے۔
کتاب میں کئی اہم موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جن میں خلیج جنگ کے عینی مشاہدات شامل ہیں مصنف نے ایک ایسی جنگ کا حال بیان کیا ہے جسے جدید ترین جنگوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ پہلو اردو ادب میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔
مصنف نے پردیس میں گزارے گئے لمحات کو بھی بیان کیا ہے۔ کتاب میں ایک پردیسی کی ذہنی، جذباتی، اور سماجی کیفیت کو عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
حقائق پر مبنی بیانیہ کتاب میں شامل ہے۔ کہیں بھی مبالغہ نہیں بلکہ مصنف نے ہر واقعہ حقیقت کے قریب تر بیان کیا ہے۔
کہیں کہیں طنز و مزاح بھی ملتا ہے، لیکن یہ شائستگی کی حدود میں رہتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔
"الحین بھوم” اردو ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے کیونکہ یہ خلیج جنگ جیسے موضوع پر لکھی گئی نادر تحریروں میں شامل ہوتی ہے۔ مصنف نے نہ صرف جنگ کے مناظر پیش کیے بلکہ اس کے اثرات، پردیسیوں کی مشکلات اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات کو بھی عمدگی سے سمویا ہے۔ ان کی سابقہ کتب "من تراش” ، "ہم مہربان” اور ” سفرین کہانی ” کے بعد یہ تصنیف بھی ان کے ادبی قد کو مزید مضبوط کرتی ہے۔
اختر شہاب کی "الحین بھوم” ایک ایسی کتاب ہے جو نہ صرف جنگی حالات کا احاطہ کرتی ہے بلکہ پردیسیوں کے احساسات اور جذبات کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اس میں حقیقت نگاری، سادہ بیانیہ اور موثر اسلوب کا حسین امتزاج موجود ہے۔ اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک نایاب تجربہ ثابت ہوگا اور خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو جنگ، ہجرت اور بیرون ملک زندگی کے تجربات کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔یہ کتاب بلاشبہ اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ ہے، جسے ہر سنجیدہ قاری کو پڑھنا چاہیے۔ میں مصنف کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |