جنگ آزادی کا سپاہی طورے باز طرم خان کیسے بنا؟
لوگوں کی اکثریت میں طرم خان کا نام ناقابل شکست حوصلے، بہادری، اور جدوجہد کی مثال سمجھا جاتا ہے۔ اردو زبان میں آپ نے، "تو بڑا طرم خان بنتا ہے” یا "ایڈا تو طرم خان” کے محاورے اکثر سنے ہوں گے۔ ہمارے اردو اور پنجابی ادب میں طرم خان کا نام ایک استعارے اور استہزا کے حوالے سے مشہور ہو گیا ہے۔ اس لیئے کہ اب طرم خان ہمارے لیئے ایک عام انسان نہیں رہا ہے بلکہ وہ ایک لازوال کردار ہے جو ایک محاورے میں ڈھل کر ہماری لوک داستانوں میں ایک ہیرو کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے پہلے طرم خان طورے باز یا طورہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پشتو زبان میں طورہ تلوار کو کہتے ہیں یوں طورہ یا طورے باز کا مطلب تلوار چلانے والا یا شمشیر زن ہے۔ یہی طورے باز اپنے آغاز میں محض ایک "گمنام سپاہی” تھا۔ لیکن وہ اپنے استقلال اور شجاعت کی وجہ سے طرم خان کے روپ میں ایک اساطیری کردار بن گیا۔ یہ کہانی جتنی عجیب اور سنسنی خیز ہے، اتنی ہی دلچسپ اور معنوی بھی ہے کہ سنہ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران ریاستِ حیدرآباد دکن کا نواب، جو نظام دکن کہلاتا تھا، وہ برطانوی سامراج کا اتحادی تھا اور اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ کوئی بغاوت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جب انگریز کے خلاف تحریک آزادی کے نعرے ہندوستان کے گلی کوچوں تک پہنچے تو اس کی بازگشت نے نظام حیدر آباد کے در و دیوار کو بھی متاثر کیا۔ یہاں بیگم بازار کا ایک عام سپاہی طورے باز خان نہ صرف باغیوں کی قیادت کرتا تھا بلکہ اس نے چھ ہزار مظاہرین کو لے کر حیدر آباد میں برٹش ریذیڈنسی پر حملہ کر دیا تھا۔ جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچے تو حیدرآباد کی مساجد، مندروں، گوردواروں اور چرچوں کی دیواروں پر اشتہارات سج گئے، جن میں نہ صرف انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں نعرے درج تھے بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ نظام بھی اس جنگ میں شریک ہو۔ حالانکہ نظام افضل الدولہ اپنے رفقا، سالارِ جنگ، امرا اور سرداروں کے ساتھ انگریزوں کی حمایت کا اعلان کر چکا تھا، مگر پھر بھی ریاست کے باشندوں نے اس جنگ میں ایک ایسی کہانی رقم کی جس نے انگریزوں کے ساتھ ساتھ نظام کے راج کی چولیں بھی ہلا کر رکھ دیں جس کا سارا سہرا طرم خان پر سجتا ہے. جب جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھے تو نظام کی فوج میں انگریز افسروں کے خلاف بھی مزاحمت شروع ہو گئی۔ نظام کی فوج کے ایک رسالے کو بغاوت کچلنے کے لیے بلڈھانہ سے دہلی جانے کا حکم دیا گیا تو جمعدار چھیدا خان نے انکار کر دیا کیونکہ جمعدار چھیدا خان یہ قطعی نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس بغاوت کو کچلنے میں مغلوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دے۔
چھیدا خان اپنے 15 دیگر ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد پہنچا تاکہ وہ نظام کو قائل کر سکے کہ وہ اس جنگ میں شامل نہ ہو لیکن جیسے ہی وہ حیدر آباد پہنچا اسے نظام کے وزیر میر تراب علی خان نے گرفتار کر کے انگریزوں کے نمائندے کے آگے پیش کر دیا جس نے اسے اور ان کے ساتھیوں کو اپنی ہی کوٹھی میں قید کر لیا۔ جب یہ خبر پھیلی تو انگریز کے خلاف عوام میں نفرت پھیل گئی۔ اس موقعے پر طرے باز خان نے باغیوں کی قیادت سنبھال کر بیگم بازار میں، جہاں جمعدار چھیدا خان اور اس کے ساتھیوں کو قید کیا گیا تھا، اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ ہلہ بول دیا۔
اس موقعے پر مولوی اللہ الدین بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ طرے باز خان کی حمایت میں پہنچ گیا، مگر نظام کا وزیر میر تراب علی خان انگریز میجر کتھبرٹ ڈیوڈسن کو پہلے ہی باغیوں کے حملے کی اطلاع دے چکا تھا جس کی وجہ سے انگریزوں نے جوابی اقدامات کی تیاری کر لی تھی۔ طرے باز خان اور مولوی اللہ الدین کے ساتھیوں نے انگریز ریزیڈنسی کی دیوار گرا دی اور دروازے کو توڑتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ اندر داخل ہوتے ہی دو طرفہ لڑائی شروع ہو گئی لیکن طرے خان کے ساتھیوں کے پاس ہلکے ہتھیار تھے جو انگریز کی تربیت یافتہ مدراس آرٹلری کے سپاہیوں کے مقابلے پر ناکارہ تھے۔ پھر بھی تمام رات گولیاں چلتی رہیں اور مقابلہ ہوتا رہا۔ بالآخر صبح کے چار بجے باغی پسپا ہو گئے لیکن انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود طرے باز خان اس نیت سے فرار ہو گیا کہ وہ زیادہ بڑی طاقت کے ساتھ پھر حملہ کرے گا۔ 22 جولائی 1857ء کو تراب علی خان کو خبر ملی کہ طرے باز خان ایک بار پھر انگریز ریزیڈنسی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس نے طرے باز خان کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ طرے باز خان بھیس بدل کر روپوش ہو گیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ طرے باز خان کی ایک پیدائشی شناختی علامت تھی کہ اس کی آنکھ کے قریب ایک تل تھا جس کی وجہ سے نظام کے کھوجیوں نے اشورخانہ کے قریبی جنگلات میں اسے ڈھونڈ نکالا۔ اس پر حیدر آباد کی عدالت میں مقدمہ چلا۔ اس دوران اس سے مولوی اللہ الدین اور دیگر باغیوں کے ٹھکانے پوچھے گئے اور نہ بتانے پر اسے طرح طرح کی صعوبتیں دی گئیں مگر طرے باز خان نے کوئی راز نہ اگلا۔ اسے سزا دے کر عمر بھر کے لئے جزائر انڈیمان (کالا پانی) بدر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے۔ لیکن طرے باز خان جیل سے دوبارہ فرار ہو گیا جس کے بعد اس کی تلاش میں انگریز فوج کے ساتھ جھڑپ ہوئی اور وہ مارا گیا۔ اس کی لاش کو شہر میں لایا گیا اور انگریز ریزڈنسی کے سامنے برہنہ کر کے درخت سے لٹکا دیا گیا۔
اس طرح موت کے بعد طورہ پہلے طرے باز خان بنا اور اپنی شجاعت و بہادری کی وجہ سے بعد میں "طرم خان” کے طور پر شہرت دوام حاصل کر گیا جس نے اپنی جان تو دے دی مگر خود کو سرنگوں کیا اور نہ ہی مسلمان مجاہدین کے بارے کوئی راز اگلا۔ انگریزوں کی تاریخ طورہ کو باغی لکھتی ہے مگر برصغیر کی تاریخ میں اسی طورے باز کو طرم خان جیسے ہیرو کا درجہ حاصل ہے جس نے آخری دم تک میدان نہیں چھوڑا۔
یہ طرے باز خان ولد رستم خان آف بیگم بازار کے طرم خان کی کہانی ہے جو اپنے پیچھے شجاعت و بہادری کی وہ مثال چھوڑ گیا جو آج بھی محاورہ بن کر تاریخ کے ابواب پر زندہ ہے۔
حیدرآباد میں طرم خان کی بغاوت کو کچلنے میں 94 انگریز فوجی مارے گئے۔ طرم خان کو شہید کرنے پر تعلق دار مرزا قربان علی کو پانچ ہزار روپے انعام دیا گیا اور اس کی تنخواہ میں دو سو روپے کا اضافہ کیا گیا، جبکہ اسے ترقی دے کر صدر تعلق دار بنا دیا گیا۔
نظام کو "سٹار آف انڈیا” کے اعزاز سے نوازا گیا جبکہ ریاست کے ذمہ 50 لاکھ سے نظام کو اپنا سکہ جاری کرنے کا اختیار دیا گیا۔ میر تراب علی کو سالار جنگ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ آج نہ نظام ہے نہ اس کی ریاست، لیکن طرے باز خان کا نام پہلے طرے باز خان اور پھر طرم خان بن کر اردو ادب میں امر ہو چکا ہے۔ انگریزوں کے ان غلاموں، نوابوں اور جاگیرداروں کو تاریخ میں کوئی نہیں جانتا بلکہ ایسے کرداروں کو عرف عام میں لوگ "انگریز کے پٹھو” کہتے ہیں مگر جنگ آزادی کے ایسے عظیم مجاہد کو لوگوں نے آج بھی طرم خان کے نام سے یاد رکھا ہوا ہے۔ حیدرآباد میں جہاں انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی، عین اسی جگہ پر طرم خان اور دوسرے شہدائے آزادی کی یادگار آج بھی موجود ہے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |