ذوالفقار علی بھٹو اور نشانِ پاکستان
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)
وطن عزیز پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست کا ایک ایسا نام ہیں جن کی سیاست سے آپ اختلاف کریں یا اتفاق لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستانی سیاست نہ صرف انکے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے بلکہ انہوں نے پاکستانی سیاست پر اتنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کے آج بھی پاکستانی سیاست میں انکے نام کی گونج سنائی دیتی ہے-
کچھ عرصہ پہلے ہی پاکستانی سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے عدالتی فیصلے کے خلاف ریفرنس میں انکی سزا کو غیر شفاف اور غیر قانونی قرار دیا تھا جس نے انکی موت کو پیپلز پارٹی کی طرف سے عدالتی قتل قرار دئیے جانے پر ایک طرح سے عدالتی مہر بھی لگا دی ہے اور اب 23 مارچ کو انکو صدر آصف علی زرداری نے ایوارڈ سے نوازا ہے جو ان کی بیٹی صنم بھٹو نے وصول کیا ہے۔ ایوان صدر سے جاری بیان کے مطابق ’ذوالفقار علی بھٹو کو ملک، جمہوریت اور عوام کی نمایاں خدمت کے اعتراف میں بعد از مرگ نشان پاکستان سے نوازا گیا ہے‘ جو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہے-
ذوالفقار علی بھٹو کی کہانی بذات خود عروج و زوال اور غم و الم کی ایسی داستان ہے جس پر کئی فلمیں بن سکتی ہیں ایک ایسا سیاستدان جس نے ایک جاگیردار سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی، دنیا کے شاندار تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی، عملی زندگی کے آغاز میں ہی حکومت کا حصہ بنے، بطورِ وزیر خارجہ اپنی ایک منفرد پہچان بنائی، اور پھر اس وقت کے بااختیار فوجی صدر سے الگ ہو کر اپنی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، سیاست کو ڈرائنگ رومز سے نکال کر عوام کی چوکھٹ پر لاۓ، ملک کے وزیراعظم بنے، اس سے پہلے جب ملک دو لخت ہوا تو ان پر ملک توڑنے کے الزامات بھی لگے، نہ صرف نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگایا بلکہ بین الاقوامی شدید خطرات اور دھمکیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، عام آدمی کو پاسپورٹ دیا، عام گلی گوٹھوں اور شہروں میں جلسوں سے لے کر اقوام متحدہ تک میں ایسی یادگار اور شاندار تقریریں کیں جو آج بھی صحافت، تاریخ اور سیاست کے طالعلموں اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لۓ بڑی اہمیت کی حامل ہیں-
جولائی 1977 میں جنرل ضیإ الحق کی طرف سے مارشل لإ لگاۓ جانے کے بعد اپریل 1979 میں پنجاب ہائی کورٹ کے انکو نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل میں سزاۓ موت کے فیصلے کو سپریم کورٹ کی طرف سے برقرار رکھنے کے بعد انہیں پھانسی دے دی گئی اور اس امر کا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ اس دور کے واحد اور سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پاکستان میں انکی جو بھی کوئی ویڈیوز اور آڈیوز موجود ہوں انہیں اعلیٰ سرکاری حکام کی نگرانی میں تلف کر دیا جاۓ لیکن سخت اور کڑی نگرانی میں سرانجام پانے والے اس عمل میں کچھ چھوٹے درجے کے افسران اور اہلکاروں نے کسی نہ کسی طرح سے چند ضروری آڈیوز اور وڈیوز کو بچانے کا خطرہ مول لیا جو بعد میں مارشل لإ کے بعد جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو سامنے آئیں-
ذوالفقار علی بھٹو کے کریڈٹ پر یقیناً بے شمار سیاسی و حکومتی کامیابیوں کے باوجود انکے سیاسی فلسفے اور انکی سیاست کو زندہ رکھنے کے لۓ انکے خاندان اور پارٹی کارکنوں نے بھی لازوال قربانیوں کی ایسی تاریخ رقم کی جو پاکستان میں اپنی مثال آپ ہے- اگرچہ کچھ لوگ عہدِ حاضر میں عمران خان اور انکی جماعت کی قربانیوں کا تقابل بھی ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی پارٹی کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں سے کرنا شروع ہو گۓ ہیں جو بہرحال ایک الگ موضوع ہے اور اس پر بات کرنا یہاں مقصود نہیں اس لۓ آمدِ برسر مطلب کے مصداق 4 اپریل 1979 کو رات کی تاریکی میں پنڈی سنٹرل جیل میں تختہ دار پر لٹکا دئیے جانے والے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جو خود نہ صرف ایک قانون دان تھے بلکہ ابتدائی عملی زندگی میں برطانیہ میں قانون پڑھاتے بھی تھے انہیں بھی اپنوں سے انصاف ملتے ملتے تقریباً نصف صدی لگ گئ اگرچہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے انکے پھانسی کے فیصلے کے بارے میں حالیہ فیصلے اور اس ایوارڈ سے انکی ذات کو کیا فائدہ ہوا کہ انکے وجود کو تو جیل میں انکے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈال کر لٹکا کر مار دیا گیا تھا کوئی کچھ بھی کہے بہرحال انہوں نے پھانسی چڑھ کر بجا طور پر اپنے الفاظ کے مطابق اپنے آپ کو تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچا لیا اور ہر گزرے دن کے ساتھ اس میں سرخرو بھی ٹھہرے-
انکو مارنے والوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ایک خصوصی پرواز کے ذریعے انکے جسد خاکی کو تابوت میں بند کر کے کسمپرسی کی حالت میں پنڈی سے لاڑکانہ روانہ کیا اور خاموشی کے ساتھ چند افراد کی طرف سے ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر انکے تابوت کو سامنے رکھ کر نماز جنازہ ادا کروا کر گڑھی خدا بخش میں دفن کر کے یہ سمجھا کہ انکے ساتھ انکی سیاست اور نظریات بھی دفن ہو گۓ ہیں لیکن پاکستانی عوام نے انکی ”شہادت“ جسے ان کے مخالفین نے کبھی شہادت نہیں مانا کے بعد انکی بڑی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کو دو دفعہ وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا جس کا راستہ روکنے کے لۓ درپردہ سرکاری حمایت اور وسائل سے بھٹو مخالف مختلف سیاسی قوتوں کا ایک اتحاد بھی بنایا گیا اور مختلف سیاستدانوں میں اس وقت کے حساب سے بڑی بڑی رقوم بھی تقسیم کی گئیں جس کا کچھ مختصر احوال سپریم کورٹ میں ائیر مارشل اصغر خان کی طرف سے دائر کردہ کیس کے فیصلے میں موجود ہے لیکن فیصلے پر مکمل عمل درآمد آج تک نہیں ہو سکا-
جولائی 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو گراۓ جانے کے بعد نہ صرف انکی اہلیہ، بیٹی اور دیگر اہل خانہ کو قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ انکے پارٹی کارکنوں کو بھی پھانسیوں، جلاوطنیوں، کوڑوں، قیدوں اور ظلم و ستم کا ایک طویل دور برداشت کرنا پڑا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اقتدار و اختیار کی اسی جنگ میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو اور اس سے پہلے انکے دونوں بھائیوں کو انتہائی پر اسرار انداز میں قتل کر دیا گیا لیکن اب جب کہ ان کی واحد زندہ اولاد صاحبزادی صنم بھٹو نے اپنے بہنوئی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری سے انکا اعزاز وصول کیا ہے تو یہ شعر برمحل نظر آ رہا ہے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست اس وقت کہاں کھڑی ہے یا پاکستانی عوام پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی سیاست کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اس سے ہٹ کر بہرحال پیپلز پارٹی اپنے بانی کی پھانسی کے بعد صوبہ سندھ میں چھ مرتبہ اور مرکز میں تین مرتبہ نہ صرف حکومت حاصل کرنے میں کامیاب رہی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے داماد اور بے نظیر بھٹو کے شوہر موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری دو مرتبہ صدر پاکستان بننے میں بھی کامیاب رہے اور یقیناً ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت سے بے گناہ قرار دیا جانا اور حکومتی سطح پر اعلیٰ سول ایوارڈ ملنا بھی انکی سیاست کی کامیابی ہی شمار ہو گی لیکن کچھ حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ جس طرح مسلم لیگ نون ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قائم نہ رہ سکی اسی طرح پیپلزپارٹی بھی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مفاہمت کی سیاست اختیار کر کے اپنا ووٹ بینک پنجاب میں بالخصوص اور باقی صوبوں میں بالعموم کمزور کر چکی ہے لیکن نظر بظاہر پیپلز پارٹی دو صوبوں میں وزارت اعلیٰ اور دو صوبوں میں گورنرشپ کے ساتھ ساتھ مرکز میں صدر پاکستان اور چئیرمین سینٹ جیسے اعلیٰ آئینی عہدوں کے ساتھ پاکستانی سیاست کے ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سیاسی منظرنامے پر موجود ہے اور جب صنم بھٹو ایوان صدر میں نمناک آنکھوں کے ساتھ اپنے مرحوم والد کا ایوارڈ وصول کر رہی تھیں تو جئے بھٹو اور زندہ ہے بھٹو کے نعرے بھی گونج رہے تھے- جاکو راکھے سائیاں، مار سکے نہ کوئے (ختم شد)

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |