شاخِ نازک کا آشیانہ

شاخِ نازک کا آشیانہ

Dubai Naama

شاخِ نازک کا آشیانہ

مغربی تہذیب سرمایہ داری اور سیکولر ازم کی بنیادوں پر کھڑی یے۔ دنیا کے امن و امان اور سلامتی کو آج جتنے بھی چیلنجز کا سامنا ہے وہ یکطرفہ طور پر اسی مغربی تہذیب کے بلاشرکت غیرے پروان چڑھنے کی وجہ سے ہیں۔ روس کی کمیونزم کو سرمایہ داری نظام ہڑپ کر گیا ہے۔ اب روس اور چین جیسے خالص سوشلسٹ ممالک میں بھی کاروبار کی ترقی کو صرف اور صرف کیپیٹل ازم کا سہارا حاصل ہے کہ مصنوعات تیار کر کے اور انہیں عالمی منڈی میں بیچ کر آپ جتنا مرضی سرمایہ یعنی اربوں کھربوں ڈالرز قانونا جمع کر سکتے ہیں!

خاص طور پر چین ہی کی مثال لے لیں اب وہ مکمل طور پر کمیونسٹ ملک ہے اور نہ ہی سوشلٹ ریاست یے۔ ایک وقت تھا کہ اسی کی دہائی تک جن مصنوعات پر "میڈ ان چائنا” لکھا ہوتا تھا اسے امراء اور متوسط طبقے کے لوگ دھتکار دیتے تھے۔ روس کے "سرخ انقلاب” اور مزدوروں کو "مساوی حقوق” کے المبردار چائنا کو بہت جلد احساس ہو گیا کہ مزدور کو صنعت و حرفت میں کھپا کر ہی دنیا میں ترقی کی جا سکتی ہے ناکہ ان کو امراء کے برابر مراعات کا خواب دیکھا کر کوئی حقیقی صنعتی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ تب تک چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا جہاں دیگر دنیا کے مقابلے میں غرباء کی اکثریت تھی اور جہاں سستے مزدور وافر مقدار میں موجود تھے۔ جب چینی رہنماؤں کو مزدور کی اہمیت کا احساس ہوا تو انہوں نے سوشلسٹ کمیونزم کا نعرہ ترک کر کے صنعتی ترقی کا الم بلند کیا۔ سنہ 1962ء میں جب صدر ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے تو چینی صدر چون لائی لاہور کی فیکٹریوں کو دیکھنے آئے تھے۔ اگلی دو دہائیوں میں لاہور اور پنڈی کی مارکیٹوں میں چائنا کی بنی چیزوں کی سستی مصنوعات کی بھرمار تھی مگر ان پر صرف غریب عوام کی نظر پڑتی تھی۔ پاکستان ہی نہیں نوے کی آخری دہائی میں دیکھا گیا کہ انگلینڈ جیسے صنعتی ملک میں بھی چینی مصنوعات کی آمد شروع ہو چکی تھی۔

میں نے سنہ 1999ء میں لندن ایڈمنٹن گرین میں پہلی بار دیکھا کہ ایک گورا "ڈو سوپ” (Dove Soup) زمین پر ڈھیر لگا کر بیچ رہا تھا۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ صابن چائنا سے تیار ہو کر آیا ہے جہاں لیبر بہت سستی پڑتی ہے اور اس کی کوالٹی بھی برابر ہے۔ اس کے بعد میں لندن کی بہت ساری "ون پونڈ شاپس” پر گیا تو پتہ چلا کہ اس میں موجود 90 فیصد سے زیادہ تیار شدہ مال چین کا بنا ہوا تھا اور کسی بھی چیز پر "میڈ ان انگلینڈ” یا "میڈ ان جرمنی” وغیرہ نہیں لکھا تھا۔ آج چین کی صنعتی ترقی کا یہ عالم ہے کہ یورپ اور خود امریکی مارکیٹوں میں چینی مصنوعات کی اتنی بہتات ہے کہ جسے دیکھتے ہوئے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان پر ٹیرف بڑھانے کے احکامات جاری کیئے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر چائنا کی انٹری تھی یا اس کا ویزہ لینا تمام دوسرے ممالک سے زیادہ آسان تھا۔ لیکن اس وقت اسی چائنا کا ویزہ لینے کے لیئے پاکستانی مارے مارے پھرتے ہیں مگر اس کا ویزہ لینا امریکہ، جرمنی اور جاپان سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ چند ماہ قبل میرا ایک دوست استعمال شدہ موبائل فونز کا کاروبار شروع کرنے کے لیئے چائنا سے ہو کر آیا جس نے دو سال کی تگ و دو کے بعد چائنا کا ویزہ لگوایا۔ اب دبئی سے بھی چائنا کا ویزہ لگوانا ہو تو چین سے بارکوڈ والا انویٹیشن منگوانا پڑتا ہے۔ حالانکہ میرا یہ دوست چائنا جانے سے پہلے یورپ اور جاپان وغیرہ سے بھی ہو کر آیا تھا مگر چین نے پھر بھی سادہ انویٹیشن پر اسے ویزہ نہیں دیا تھا۔ چین کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں صنعتیں ہیں اور وہاں دنیا بھر کی چیزیں تیار کی جا رہی ہیں۔ امیر ممالک کے صنعت کار اپنے ملک میں مہنگی لیبر کے ساتھ فیکٹری لگانے کی بجائے اور زیادہ منافع کمانے کی خاطر اپنی برانڈز چین سے کم خرچ پر تیار کروا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں میرے ایک برٹش پاکستانی کے ساتھ ایک لطیفہ یہ پیش آیا کہ وہ برٹش پاسپورٹ پر ہانگ کانگ میں ایک کاروباری کانفرنس اٹینڈ کرنے گئے جس کے بعد انہوں نے سوچا کہ وہ ساتھ میں چائنا کا بھی چکر لگا لیتے ہیں اور جب وہ شنگھائی ایئرپورٹ سے اتر کر امیگریشن گئے تو چینی عملہ نے اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔

اب چائنا میں بھی آپ اسی طرح کمپنی بنا کر وزٹ ویزہ کے لیئے سپانسر جاری کر سکتے ہیں جس طرح عرب ممالک میں ایل ایل سی یا اسٹیبلشمنٹ کمپنیاں بنا کر وزٹ اور ایمپلائمنٹ ویزے لگوائے جا سکتے ہیں۔

چین کی یہ ترقی آنکھوں کو چندھیا دینے والی سرمایہ داری نظام کی بدولت ممکن ہوئی ہے اور تیزی سے مزید ہو رہی ہے جس کے پیچھے سرمایہ داری کی آزاد منڈی کھڑی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی سرمایہ داری اور سیکولر ازم کے سامنے دنیا کا کونسا معاشی اور سیاسی نظام یا ملک بند باندھے گا؟ دنیا میں تہذیبیں صرف ترقی یافتہ اقوام کی پنپتی ہیں۔ اسلامی تہذیب قرآن و سنت میں تو موجود ہے مگر دنیا کے کسی مسلمان ملک میں "اسلامی نظام” مکمل طور پر رائج نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان جیسے "اٹامک پاور” ملک میں بھی اسلام نافذ نہیں ہے بلکہ وہ معاشی بدحالی کا شکار ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

سرمایہ داری کی تعریف یہ ہے کہ آپ کاروبار، نوکری یا کسی بھی دوسرے آمدن کے ذریعے سے ٹیکس دے کر جنتا چاہیں سرمایہ جمع کر سکتے ہیں جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ساڑھے آٹھ ارب آبادی کے پاس جتنا پیسہ اور ذرائع ہیں ان سے زیادہ پیسہ اور سرمایہ دنیا کے صرف 300 یا اس سے کچھ زیادہ امیر ترین افراد اپنے پاس قانونا اکٹھا کر سکتے ہیں۔

اس پر قہر یہ ہے کہ "سیکولر ازم” ایسا نظام فکر ہے جو انسان کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ جیسی چاہے اور جس عقیدے کے مطابق چاہے وہ زندگی گزار سکتا ہے اس سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ آزادی کے نام پر اس کا "پرائیویٹ” معاملہ ہے یعنی ریاست یا خدا جیسی کسی عظیم ہستی کے سامنے دنیا کا کوئی انسان جواب دہ نہیں ہے، اور یہی آج کی ترقی یافتہ ترین "مغربی تہذیب” کا لب لباب ہے، بقول علامہ اقبال، "تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کُشی کرے گی،
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا۔

Title Image by Ferdinand from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں