داس کیپیٹل کا بے وطن فلسفی
مشہور فلسفی اور مارکسزم کے بانی کارل مارکس کے بارے ایک خاتون مبصر کا تبصرہ پڑھا جس میں لکھا تھا کہ، "تقدیر ہر کسی پر مہربان نہیں ہوتی کہ وہ اعلی پائے کا صاحب علم اور دانشور بھی ہو اور صاحب ثروت یا خوشحال بھی ہو، جس کی مثال یہ ہے کہ کارل مارکس جیسے بڑے بڑے فلاسفرز اور مصنفین مفلسی اور غربت کی بدترین زندگیاں گزار کر مر گئے۔”
دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا یا مزدور ہو جس نے کارل مارکس کا نام نہ سنا ہو۔ کارل مارکس نے سنہ 1867ء میں معرکتہ الآراء کتاب "داس کیپیٹل” لکھی جس میں انہوں نے سرمایہ و سرمایہ داری نظام اور مزدور طبقہ کے استحصال کی وجوہات کا تجزیہ کیا۔ اس کتاب کے ذریعے ایک نیا نظریہ سامنے آیا جسے "مارکسزم” (یا مارکسیت) کہا جاتا ہے۔ اس نظریئے نے تمام پرانے نظریات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جسے آج بھی پوری دنیا میں پوری شدومد کے ساتھ سراہا جاتا یے۔ علامہ محمد اقبال جیسے عظیم الشان شاعر اور فلسفی نے بھی کارل مارکس کی عظمت کو اپنی نظم "اِبلیس کی مجلسِ شُوریٰ” میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ، "وہ کلیمِ بے تجلّی، وہ مسیحِ بے صلیب،
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب۔”
کارل مارکس جرمنی میں ایک وکیل باپ کے گھر پیدا ہوئے جنہیں اپنے مقاصد اور لکھائی پڑھائی کے لیئے یا اپنی ذات کے لیئے ناصرف مالی بدحالی کا سامنا رہا بلکہ انہیں چرچ کی مخالفت اور دشمنی کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ مارکس دنیا کے واحد شخص تھے کہ، جس پر یورپ کے تمام چرچوں اور پادریوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مارکس کو یورپ کے سارے یہودی مذہبی اور استحصالی پیشواؤں نے "خارج المذہب” قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہ جنت کا پرچارک کرنے والے عیسائی پادریوں نے بھی فتوی جاری کیا کہ جو بھی کارل مارکس کو قتل کرے گا، وہ جنت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جگہ پائے گا۔
کارل مارکس سرمائے اور سرمایہ داری کے شدید مخالف ہونے کے باوجود انسانی بقا کے لیئے زمینی وسائل اور سرمائے کی اہمیت کے بارے ایک جگہ کہتے ہیں کہ، "میں کھاتا ہوں اس لئے میں موجود ہوں۔ ” فرانسیسی فلسفی ڈیکارٹ نے اس مد میں کہا تھا، "میں سوچتا ہوں اس لئے میں موجود ہوں۔” اسی طرح مشہور شاعر بائرن نے کہا تھا کہ، "میں پیار کرتا ہوں اس لئے میں ہوں،” اور اسی موضوع پر مصنف کافکا کا کہنا ہے کہ، "میں ڈرتا ہوں اس لئے میں ہوں۔” کارل مارکس کا یہ فلسفہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر انسانی معاشرے کی بقا کی جدوجہد کا درس دیتا یے۔
کارل مارکس نے "داس کیپیٹل” لکھ کر انسانی تاریخ کی ایک فلسفیانہ تفہیم کی اور انسانوں کو استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرانے اور ضروری انسانی قدروں کا ادراک کرنے کا عملی طریقہ فراہم کیا۔ مارکس نے جدلیاتی مادیت کی روشنی میں تاریخ اور اس کی تبدیلی کے عمل کا تجزیہ کرتے ہوئے معاشی استحصال اور قدرِ زائد کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصورات کا قلع کما کرنے کی کوشش کی۔
اٹھارویں صدی کا مغربی معاشرہ انتہائی قدامت پسند تھا جس میں کارل مارکس جیسی لبرل شخصیت کے نظریات کو قدیم اور پاپائی خیالات رکھنے والے پادریوں نے آڑے ہاتھوں لیا، جہاں مارکس نے اپنی تنگ دستی اور کسمپرسی کے 15سال ایک چھوٹے سے کمرے میں بند رہ کر گزارے۔
حتی کہ کارل مارکس کے بارے یہ افسوسناک واقعہ مشہور ہے کہ وہ پوری دنیا کی واحد شخصیت تھے جو بغیر شہریت کے زندہ تھے یعنی وہ بے ملک شخص (Stateless Person) تھے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو دنیا کا کوئی بھی ملک ان کو اپنانے یا اپنے ہاں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ حالانکہ کارل مارکس ایک مادیت پسند ہونے کے باوجود ایک حقیقت پرست، سچے اور انسانی اقدار پر یقین رکھنے والے ایک عظیم المرتبت انسان تھے جنہیں بجا طور پر انسانیت کی 1000 سالہ تاریخ کا بااثر ترین فلسفی کہا جا سکتا ہے۔
مارکس دنیا کے وہ واحد فلسفی ہیں جنہوں نے سرمایہ دار و جاگیردار طبقے کے ساتھ ساتھ اس پرولتاریہ طبقے پر بھی تنقید کی، جس کے لئے انہوں نے ساری دنیا کی دشمنی مول لے لی تھی۔ مارکس کے دو بچے پیسے نہ ہونے اور علاج کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے وفات پا گٸے۔ بالآخر ممتا سے مجبور کارل مارکس کی بیوی جینی نے بھوک سے بلکتے اور سسکتے بچوں کو دیکھ کر چِلاتے ہوۓ کہا تھا کہ "چھوڑ دو یہ کتابیں، آپ کے بچے بھوک سے مر ریے ہیں،” جس کے جواب میں مارکس نے کہا تھا، "کوئی بات نہیں، اگر آج میرے دو بچے مر گئے، مگر میرے لکھنے سے مستقبل میں کروڑوں بچے بھوک اور بیماریوں سے محفوظ رہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں یے۔” وقت نے ثابت کیا کہ آگے چل کر مارکس کا "فلسفہ سوشلزم” انسانوں کے لئے واحد امید کی کرن ثابت ہوا، جس کی ضرورت و افادیت آج تیزی سے بڑھتی ہوئی سرمایہ داری کے خلاف پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔
کتاب ھذا "داس کیپیٹل” کو سنہ 2020ء میں بی بی سی کی طرف سے ہونے والے بین الاقوامی سروے میں پوری دنیا میں اول نمبر قرار دیا گیا۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ سید تقی حیدر نے کیا ہے۔ مارکس کی اس شہرہ آفاق کتاب کو بے اثر کرنے کے لئے گزشتہ دو صدیوں میں سامراج نے مختلف ریاستوں کے ذریعے 2000 سے زائد کتابیں تحریر کروائیں لیکن وہ ساری کتابیں داس کیپیٹل کے سامنے بے روح ہو کر دفن ہو چکی ہیں، جبکہ "داس کیپیٹل” کی ضرورت و اہمیت آج بھی برقرار ہے۔
کارل مارکس کے نظریات کے مجموعے کو عرف عام میں "مارکس ازم” ہی کہا جاتا ہے جسے کارل مارکس نے اپنے ساتھی فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر ترتیب دیا تھا۔ دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریک کے حوالے سے مارکسزم کے نظریات کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ نظریہ کوئی مفروضہ ہے اور نہ ہی خیالی پلاؤ ہے، بلکہ دیگر سائنسی علوم کی طرح یہ انسانی تاریخ و سماج کے ارتقا کا علم ہے۔ یہ فلسفہ سرمایہ داری نظام کے خاتمہ اور سوشلزم یا کمیونزم کے قیام کی نوید دیتا ہے۔ اگرچہ خود کمیونسٹ ممالک بھی سرمایہ داری نظام کے شکنجے میں سسک رہے ہیں مگر سرمایہ داری کے مقابلے میں "اسلامی سوشلزم” پر بھی زیادہ کام نہیں کیا جا سکا ہے۔ مسلمانوں کی گزشتہ 500 سالہ تاریخ میں ماسوائے اقبال کے کوئی بڑا فلسفی یا دانشور پیدا نہیں ہوا ہے جو سرمایہ داری یا مرحوم کمیونزم کا کوئی متبادل اسلامی معاشی نظام دے سکے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |