مراکش زندہ بچ جانے والے پاکستانی
٭٭٭
سرعام
٭٭٭
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
انسانی سمگلروں نے ایک بار پھر کئی پاکستانیوں کی جانیں لے لیں، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے متعلقہ ادارے کیوں ان انسانی سمگلروں کے خلاف ایکشن نہیں لے رہے ہیں۔ مراکش میں انسانی اسمگلنگ کے حالیہ واقعات نے نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ عالمی برادری کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان انکشافات سے یہ بات واضح ہوگئ ہے کہ انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ عالمی سطح پر کتنا گہرا اور خطرناک ہو چکا ہے۔ یہ واقعہ انسانی حقوق، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی اور عالمی انسانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کو غلامی کے لیے فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ افریقی ممالک سے لوگوں کو یورپ اور امریکہ لے جا کر غلام بنایا گیا اور ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے گئے۔ ریاست چترال کے دور میں چترالیوں کو بھی بطور غلام فروخت کرنے کا رواج موجود تھا۔ بیسویں صدی میں اقوام متحدہ اور دیگر تنظیموں کی کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ ختم نہیں ہو سکا۔ موجودہ دور میں انسانی اسمگلنگ جدید شکل اختیار کر چکی ہے جس میں لوگوں کو بہتر زندگی کا جھانسہ دے کر غیر قانونی طور پر ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کیا جاتا ہے۔
مراکش کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی باشندوں کے انکشافات نے انسانی اسمگلنگ کے عالمی نیٹ ورک کی سنگینی کو بے نقاب کیا ہے۔ ان بچ جانے والے خوش نصیب پاکستانیوں کے مطابق ان کی کشتی کو کھلے سمندر میں روک کر ان سے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔کھانے پینے کی شدید قلت کے باعث کئی پاکستانی بھوک اور پیاس سے جاں بحق ہو گئے۔ کشتی میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور چارپاکستانی نوجوانوں کو سر اور چہرے پر ہتھوڑے سے ضربیں لگا کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ اس نیٹ ورک میں سینیگال، موریطانیہ اور مراکش کے انسانی اسمگلر شامل تھے جو بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ کے منظم گروہ کا حصہ ہیں۔
اس المناک حادثے کے بعد وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں شہباز شریف کی ہدایت پر ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل تھے۔ کمیٹی کے ابتدائی نتائج سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے یہ نیٹ ورک انتہائی منظم ہیں اور ان کے پاس جدید وسائل موجود ہیں۔
کمیٹی نے متاثرین کے بیانات اور واقعات کی تفصیلات جمع کیں جن سے یہ معلوم ہوا کہ یہ نیٹ ورک نہ صرف انسانی جانوں سے کھیلتا ہے بلکہ متاثرہ خاندانوں سے تاوان کی وصولی بھی کرتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں معاشی حالات کی خرابی لوگوں کو غیر قانونی راستے اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
لوگ ترقی یافتہ ممالک میں بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بین الاقوامی سطح پر کام کرتا ہے، جسے ختم کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے یہ واقعات نہ صرف متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کے لیے تباہ کن ہیں بلکہ یہ معاشرتی اور قومی سطح پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کئی لوگ راستے میں ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے متاثرہ خاندان مالی اور جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
انسانی اسمگلنگ جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔ لوگوں کو انسانی اسمگلنگ کے خطرات اور نتائج سے آگاہ کیا جائے۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون بڑھایا جائے۔غربت اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مؤثر پالیسیز بنائی جائیں۔
مراکش میں پیش آنے والے واقعات انسانی اسمگلنگ کے مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت اور عوام مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ انسانی اسمگلنگ نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف ایک سنگین ظلم بھی ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں اس کے نتائج مزید تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |