”پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی جنگ“

”پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی جنگ“

تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)

ریگولر میڈیا اس وقت نہ صرف مکمل طور پر سوشل میڈیا کے حصار میں ہے بلکہ پرنٹ میڈیا تو اپنی بقا کی ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس میں اس کے بہت سارے مورچہ نشیں یکے بعد دیگرے ڈھیر ہوتے جا رہے ہیں حال ہی میں لندن سے پاکستان کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس کے اخبار نے تقریباً نصف صدی پر محیط اپنا روایتی اخبار کا سفر ختم کر دیا ہے جسکی وجہ سے اسکا پرنٹ ایڈیشن بند کر دیا گیا ہے اور اب قارئین کے لئے صرف انٹرنیٹ پر ڈیجیٹل ایڈیشن دستیاب ہو گا جبکہ اس سے پہلے ایک دو اور بھی معروف اخبارات کاغذ پر پرنٹ ہو کر سامنے آنے سے منہ موڑ چکے ہیں- 

یقیناً یہ افسوسناک خبر ہے، لیکن اچھا یا برا، معاشرہ بہت تیزی سے پیپر لیس سوسائٹی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ڈیجیٹلائزیشن کا دور دورہ ہے، انٹرنیٹ کی بدولت مروجہ قدیمی صحافت بھی تبدیلی کے ماحول کے زیر اثر ہے اور ایسے میں وہی اخبارات جن کی انتظاميہ نے بروقت استحکام اور تبدیلی کا جانب مثبت اور موثر حسن انتظام اپنایا شاید وہ زندہ رہیں گے لیکن ایک مختلف شکل اور مختلف طریقے سے۔ 

انٹرنیٹ کے آنے اور پھر اس کی ترقی سے سوشل میڈیا کے ظہور نے نہ صرف انسانی معاشرے کو واقعتاً ”گلوبل ویلج“ میں بدل دیا ہے بلکہ اطلاعات کی تیز ترین دستیابی اور باہمی رابطوں میں اضافے کے علاوہ لوگوں کو واقعات کے بارے میں زیادہ جانکاری بھی فراہم کر دی ہے اور شاید حالات و واقعات کے تیزی سے سامنے آنے پر لوگوں کو سوشل میڈیا نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کرنے کی تیز ترین سہولت بھی فراہم کر دی ہے لیکن بدقسمتی سے اس تیزرفتاری کی دوڑ میں سچ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی تفریق تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے جس سے معاشرے اور سوسائٹی میں عملی طور پر اسکے اثرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں- 

ایسے میں مختلف چیزیں، واقعات ، حالات اور حادثات انفرادی ہوں یا اجتماعی، علاقائی ہوں یا ملکی، قومی ہوں یا بین الاقوامی دنیا کو متاثر کرنے کی صلاحیت اور انکی پہنچ بھی اسی طرح سے بڑھ گئی ہے لیکن یہاں پر بات انفرادی ہو یا اجتماعی ، قوموں کی ہو یا ملکوں کی، سب اپنے اپنے مفادات اور ترجیحات کے اسیر نظر آتے ہیں مثلاً مغربی دنیا یا بااثر ممالک کا یوکرین اور روس جنگ پر ردعمل اور اسرائیل فلسطین جنگ پر ردعمل یکسر مختلف آیا تھا اسی طرح جب دیگر کوئی اہم واقعہ یا حادثہ ہوتا ہے تو اس پر بھی مختلف ممالک، قوموں اور سخصیات کا ردعمل بھی یکسر مختلف ہوتا ہے جس میں لوگوں ، اقوام اور ملکوں کی ذاتی پسند و ناپسند، ترجیحات اور مفادات کا بھی بڑا عمل دخل ہے جسکی وجہ سے دنیا بھر میں مختلف معاملات میں اتار چڑھاؤ آ رہے ہیں، ایک طرف جہاں انفرادی سطح پر لوگوں کو زیادہ معلومات حاصل کرنے کے مواقع بڑھ رہے ہیں اور دوسری طرف ملکوں کی سطح پر نئے اتحاد اور نئے معاہدے ممکن ہو رہے ہیں جس سے دنیا بڑی حد تک تبدیل ہو رہی ہے اور اس میں یقیناً ریگولر میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے لیکن یہ امر بحث طلب ہے کہ یہ کردار منفی ہے یا مثبت؟  

عام طور پر میڈیا کی اصطلاح ذرائع ابلاغ کیلئے استعمال ہوتی ہے جس میں اس کے مختلف میڈیم شامل ہیں لیکن ان دنوں فوری طور پر میڈیا کا نام آتے ہی جو تصور ذہن میں ابھرتا ہے وہ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، فلم اور رسائل کی بجائے سوشل میڈیا پر چھائی سچی یا جھوٹی ان خبروں اور کہانیوں کے بارے میں ہوتا ہے جو موبائل فون کی بدولت عام آدمی کی دسترس میں ہیں اور اس ضمن میں بالخصوص وطن عزیز پاکستان بہت تیزی سے تقریباً اپنی مثال آپ بنتا جا رہا ہے جہاں پر سوشل میڈیا پر طرح طرح کا سچا اور جھوٹا مواد گردش کر رہا ہے جبکہ یہاں برطانیہ میں صورتِ حال قدرے مختلف ہے کیونکہ یہاں ایک تو ڈیٹا پروٹیکشن کے سخت قوانین ہیں اور دوسرا ہتک عزت کے قوانین بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے کوئی کسی کی پرائیویسی میں دخل اندازی کر کے یا کسی کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کر کے آسانی کیساتھ جان نہیں چھڑا سکتا اگر معاملہ عدالت میں چلا جائے تو نہ صرف باقاعدہ شنوائی ہوتی ہے بلکہ جھوٹے اور بے سروپا الزامات لگانے والوں پر بھاری جرمانے بھی عائد ہوتے ہیں لیکن وطن عزیز پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے اور سچ و جھوٹ میں بسا اوقات تفریق بھی بہت مشکل ہو جاتی ہے اور اس میں ہر کوئی انفرادی اور اجتماعی طور پر بلا خوف و خطر اپنا پروپیگنڈہ جاری رکھتا ہے جسکی وجہ سے منظرنامہ مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے-

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا کے آنے سے اطلاعات بہم پہنچانے اور پروپیگنڈہ کے لئے تیزترین پلیٹ فارم میسر ہو گئے ہیں جبکہ اس سے پہلے ریگولر میڈیا کی بدولت نہ تو اتنی تیزی تھی اور نہ ہی اتنی آزادی میسر تھی مثلاً پرنٹ میڈیا میں تو مختلف مدارج پر یہ کوشش ہوتی تھی کہ غلطیوں اور جھوٹ سے پاک درست اطلاعات اور صحیح خبر دی جائے جسکا بڑی حد تک معاشرے اور سوسائٹی میں اثر بھی ہوتا تھا جبکہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے نہ صرف خبر کو چھاننے اور جانچنے کا کردار ادا کرنے والے وہ بہت سے مدارج بتدریج کم ہوئے بلکہ چینلز کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں اخبارات اور رسائل میں جو چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہوتا تھا اس سے پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نے گلو خلاصی کرا لی اور بریکنگ نیوز و تبصروں اور تجزیوں کے نام پر عوام کی سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے برعکس ایک بالکل ہی نئے، جاندار اور تیزرفتار قسم کے میڈیا سے شناسائی ہوئی- اگرچہ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی صرف سرکاری پروپیگنڈہ مشین کا کردار ادا کرتے تھے اور پرائیویٹ چینل نے اس کے برعکس عام عوام اور اپوزیشن کو بھی دکھانا شروع کیا لیکن بات یہاں پر رکی نہیں بلکہ سوشل میڈیا نے تو دونوں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بہت پیچھے چھوڑ کر سب کچھ یوں تہس نہس کیا کہ خبر اور پروپیگنڈے کے فرق کیساتھ ساتھ سچ اور جھوٹ کی تمیز بھی ختم ہو کر رہ گئی ہے لیکن اس حقیت سے انکار بھی نہیں کہ اس سب کے باوجود بہت سے سچے واقعات اور مسائل سوشل میڈیا ہی کی بدولت منظر عام پر آئے- 

علم معاشیات Economics کے ایک اصول کیمطابق دولت بذات خود نہ تو اچھی اور نہ ہی بری ہوتی ہے بلکہ اس کا استعمال اچھا یا برا ہوتا ہے بالکل اسی طرح سوشل میڈیا بذات خود نہ تو اچھا ہے اور نہ ہی برا بلکہ اس کا استعمال اچھا اور برا ہوسکتا ہے جس طرح علم معاشیات کے مطابق اب یہ دولت کا استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ دولت مل جانے کے بعد اس کو اچھے کاموں میں استعمال کرتے ہیں یا برے کاموں میں لگاتے ہیں بالکل اسی طرح سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس مثلاً فیس بک، ٹوئٹر جسے اب ایکس کہتے ہیں، انسٹاگرام، یوٹیوب چینل، ٹک ٹاک، میسنجر، وٹس ایپ اور سنیپ چیٹ وغیرہ کے ذریعے کیسا مواد اپ لوڈ اور شئیر کرتے ہیں کیونکہ یہ مواد خواہ کسی پوسٹ کو لائک، کمنٹ کی صورت میں ہو، شئیر کیا گیا ہو یا مختلف گروپوں میں انفرادی طور پر رابطہ کیا گیا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ مثبت ہے یا منفی، اس سے اور اس کے مضمرات سے متعلقہ استعمال کنندہ کا آگاہ ہونا بھی بہت ضروری ہے – 

یہاں پر زیادہ قصور وار وہ لوگ ہی ہیں جو اس کا مثبت استعمال نہیں کرتے اور پھر تنقید کی زد میں سوشل میڈیا آتا ہے- بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے اس کے بارے میں گالی نما لفظ استعمال کر کے اس سے تشبیہ دیتے ہیں اور شاید وہ بڑی حد تک درست بھی ہوں کہ آئے روز لوگ دوسروں کے نام سے اکاؤنٹ بنا کر نہ صرف ان کے دوستوں اور عزیزوں سے رقم بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایسے جعلی اکاؤنٹس سے وہ اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل کیلئے جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ بھی کرتے ہیں جبکہ اکثر سوشل میڈیا صارفین مواد Content کو دیکھے اور سچ و جھوٹ جانچے اور پرکھے بغیر جس طرح تیزی سے لائکس اور کمنٹس کئے جانے کیساتھ ساتھ اسے آگے شئیر کرتے ہیں وہ بھی بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے یقیناً اسکا تدارک بھی بہت ضروری ہے لیکن حکومتوں کو قانون سازی کرتے وقت نہ صرف تمام متعلقہ فریقین سے پوری مشاورت کرنی چاہئے جیسا کہ حالیہ پیکا ترمیمی آرڈیننس 2025 پر  پاکستان کی صحافی برادری اور صحافتی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں کہ ان سے مشاورت نہیں کی گئی ایک طرح سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک طرف وہ خود متاثرین ہیں اور دوسری طرف حکومت وقت سے انہیں کوئی ریلیف یا مدد ملنے کی بجائے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو انکے لئے مزید مسائل پیدا کریں گے- 

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

معراج: سفرنامہ محمدی ﷺ 

منگل جنوری 28 , 2025
اسلامی تاریخ میں سفر معراج اپنی مثال آپ ہے۔ روز ازل سے اب تک ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا
معراج: سفرنامہ محمدی ﷺ 

مزید دلچسپ تحریریں