عالمی دن براے تعلیم
تحریر محمد ذیشان بٹ
تعلیم کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ یہ انسانی شعور، فکری بلندی اور زندگی کے حقیقی مقاصد کو سمجھنے کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ دنیا بھر میں عالمی دن مختلف موضوعات کو اجاگر کرنے اور ان کے لیے شعور پیدا کرنے کے لیے منائے جاتے ہیں۔ انہی دنوں میں سے ایک "عالمی دن برائے تعلیم” بھی ہے، جو تعلیم کی اہمیت اور اس کے فروغ کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔
عالمی دن برائے تعلیم کا آغاز اقوام متحدہ کے زیر اہتمام 2018 میں کیا گیا، جس کا مقصد دنیا بھر میں تعلیم کے حق کو تسلیم کرنا اور اس کی اہمیت پر زور دینا تھا۔ یہ دن ہر سال 24 جنوری کو منایا جاتا ہے تاکہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے، اور یہ باور کرایا جا سکے کہ تعلیم کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان اپنی ذات اور کائنات کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکتا، اور معاشرتی ترقی کا تصور بھی ممکن نہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں تعلیم کی صورت حال انتہائی افسوسناک ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے، اور ان کی تعداد تقریباً 22.8 ملین ہے، جو دنیا بھر میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی دوسری بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے غربت، صنفی امتیاز، اور سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے صورت حال مزید ابتر ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی یا ان کے لیے اسکول ہی موجود نہیں۔ سندھ اور بلوچستان جیسے پسماندہ صوبوں میں تعلیم کی صورت حال بدترین ہے، جہاں بنیادی تعلیمی ادارے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اسلام تعلیم کو انتہائی اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید کی پہلی وحی ہی تعلیم کے بارے میں ہے: "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ تعلیم کے بغیر انسان کا ذہنی اور روحانی ارتقا ممکن نہیں، اور وہ ایک مردہ جسم کی مانند ہے۔ اسلام نے تعلیم کو عبادت کے درجے پر فائز کیا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کی کمی نظر آتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کو کبھی بھی ترجیحی بنیادوں پر نہیں لیا گیا۔ ہر آنے والی حکومت نے بلند و بانگ دعوے کیے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بجٹ کا معمولی حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے، اور وہ بھی اکثر بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکول کی عمارتیں کھنڈر بن چکی ہیں، اساتذہ کی کمی ہے، اور کئی جگہوں پر اسکول صرف کاغذات میں موجود ہیں۔
مزید برآں، پاکستان میں مختلف تعلیمی نظام رائج ہیں، جن میں سرکاری اسکول، نجی اسکول، مدارس اور غیر ملکی نصاب پر مبنی تعلیمی ادارے شامل ہیں۔ یہ نظام طبقاتی فرق کو بڑھا رہے ہیں اور تعلیمی معیار میں یکسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے تعلیم کو کمانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں، جہاں معیار تعلیم کے بجائے فیس کی بنیاد پر طلبہ کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ یہ رجحان متوسط اور نچلے طبقے کے بچوں کو تعلیم سے محروم کر رہا ہے۔
تعلیم کے فروغ کے لیے چند تجاویز پر عمل ضروری ہے۔ سب سے پہلے، تعلیم کو قومی ترجیح بنایا جائے اور اس کے لیے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں، اسکولوں کی حالت بہتر بنائی جائے، اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اساتذہ کی تربیت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور ان کی تنخواہیں بہتر کی جائیں تاکہ وہ دلجمعی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔
تعلیمی نظام میں یکسانیت پیدا کی جائے، اور ایک ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو تمام طبقات کے لیے قابل قبول ہو۔ نجی تعلیمی اداروں کو قواعد و ضوابط کا پابند بنایا جائے تاکہ وہ معیار تعلیم کو برقرار رکھ سکیں اور تعلیم کو کاروبار نہ بنائیں۔
حکومت کو چاہیے کہ عوام میں تعلیم کی اہمیت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے مہم چلائے اور والدین کو اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے ترغیب دی جائے۔ میڈیا، مذہبی رہنما، اور سماجی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
تعلیم کسی بھی قوم کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ اگر پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانا ہے تو تعلیم کے میدان میں انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے۔ تعلیم ہر شخص کا بنیادی حق ہے، اور اس حق کو پورا کیے بغیر معاشرتی ترقی اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ عالمی دن برائے تعلیم ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرہ تشکیل دینا ہے۔
Title Image by Ernesto Eslava from Pixabay
محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |