نیا سال، عقائد،حقائق، رسوم اور تاریخ

نیا سال، عقائد،حقائق، رسوم اور تاریخ


تحریر__توصیف نقوی

دنیا کی تاریخ میں سات مشہور تہذیبوں کا ذکر ملتا ہے اور موجودہ دور کو آٹھویں تہذیب یا عالمی تہذیب بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ تقسیم عام طور پر تاریخی ترقی اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
تہذیب ایک منظم معاشرتی نظام کہلاتا ہے جو زندگی کے مختلف پہلوؤں جیسے سماجیات(ثقافت)، معیشت، سیاست، علم، فن اور عقائد(مذہب) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نظام کسی بھی معاشرے کی اخلاقی، معاشی اور مذہبی ترقی یا تنزلی کا باعث ہوتا ہے۔

دنیا کی سات مشہور تہذیبیوں میں سے پہلی تہذیب کو
(1)میسوپوٹیمیا تہذیب کہا جاتا ہے جو کم و بیش 3500 سال قبل مسیح پہ پروان چڑھی۔ اس تہذیب کا علاقہ دجلہ اور فرات کے درمیان کا علاقہ کہا جاتا تھا۔ یہاں یہ بات ایک دلچسپ اور تاریخی بھی ہے کہ دنیا کی سب سے قدیم تاریخ اور سویلائزیشنز کی ابتدا حجازِ عرب(موجود عراق) سے شروع ہوتی ہیں۔ جن لوگوں نے گریجوایشن میں تاریخ کا سبجیکٹ منتخب کیا ہوا ہو وہ رضوان قادری صاحب کی کتاب سے تاریخی لطف لے سکتے ہیں۔ میسوپوٹیمیا تہذیب دنیا کی پہلی منظم تہذیب قرار پائی جس میں معاشرتی زندگی و انتظامی اصولوں کی ایجاد ہوئی۔
میسوپوٹیمیا تہذیب اور حضرت آدم علیہ السلام کے درمیان یعنی دنیا کی ابتدا کے درمیان کا فرق شاید کسی کو معلوم نہیں مگر کچھ تارایخ دان یہ قیاس کرتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام دس ہزار سال قبل مسیح یا چھ ہزار سال قبل مسیح دنیا میں تشریف لائے اور اس سے پہلے یہ دنیا ایک پانی، جنگلات، پہاڑوں اور میدانوں سے سجا ایک سیارہ تھا جس کا درجہ حرارت حد درجہ ٹھنڈا تھا۔

اس کے بعد بالترتیب جن تہذیبوں کا ذکر ملتا ہے ان میں!
(2)مصری تہذیب (جو کہ دریائے نیل کے کنارے پروان چڑھی جس میں اہرام، فرعونوں کی حکومت اور شمسی کلینڈر کی ایجاد ہوئی)۔
(3)وادئِ سندھ کی تہذیب (موجودہ پاکستان اور بھارت کا علاقوں پہ مشتمل معاشرہ وادئِ سندھ کی تہذیب کہلایا جہاں منظم شہر، نکاسیِ آب کا نظام اورتجارت کا فروغ وجود میں آئے)۔
(4)چینی تہذیب ( دریائے زرد (Yellow River) کے کنارے آباد لوگ ایجادات اور نظام کیوجہ سے تاریخ کا حصہ ہیں جبکہ چینی تہذیب کے لوگوں کی ایجادات ریشم، کاغذ اور بارود انکی وجہ شہرت تھے)۔
(5)یونانی تہذیب ( فلسفہ، جمہوریت اور سائنس کی بنیاد یونانی تہذیب کی پہچان کہلاتی ہے جس نے سقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم مفکرین سے دنیا کو روشناس کرایا)۔
(6)رومی تہذیب (رومیوں نے دنیا کی پہلی باقاعدہ عظیم سلطنت قائم کی جس میں قانون کا وجود قائم ہوا اور انجینئرنگ کے شاہکار دنیا نے دیکھے)۔
(7)اسلامی تہذیب (اسلامی تہذیب کا وجود 7ویں صدی عیسوی میں ہجرت کے بعد وجود میں آیا اور اس تہذیب نے دنیا کو فلاحی ریاست، علم، فلسفہ، طب اور سائنس کے بنیادی اصولوں پہ بحث و مباحثہ کو پروان چڑھایا مگر کسمپرسی یہی رہی کہ اسلامی تہذیب میں بنیادی اصولوں کے اوپر فنِ حرب کا غلبہ رہا اور پھر مناظروں میں ایک دوسرے کو مات دینے جیسے رواجوں نے جنم لیا)۔

موجودہ دور کو عُرف عام میں آٹھویں تہذیب یا عالمی تہذیب بھی کہا جاتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں دنیا پہلے سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے اور باہمی انحصار پر مبنی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اور عالمگیریت پر مبنی تہذیب ہے۔
اس تہذیب نے دنیا کو سائنسی ترقی کی معراج پہ جا کر ڈیجیٹلائزیشن کے تحت گلوبل ویلیج کا تصور دیا جس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ آپ پل بھر میں دنیا جہاں کی خبریں رکھتے ہیں، علوم پہ دسترس ممکن ہے ورگرنہ یہ تحریر لکھنے کے لیے بیسیوں کتب کا مطالعہ ضروری تھا مگر یہ چند دن کی سرچ سے ممکن ہوا۔

نیا سال، عقائد،حقائق، رسوم اور تاریخ

ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں اکثر دنیاوی عالمی نیو ایئر پہ پہلے سے تھوڑا کم مگر ہمیشہ ایک موضوع پنپتا رہتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا عیسوی سال کے آغاز سے تعلق نہیں بلکہ اسلامی سال محرم سے ہوتا ہے اور اس بات کو سادہ لوح عوام حد درجہ مذہبی عقیدت کے رو سے سمجھتی ہے۔ نئے سال کا آغاز کسی بھی تہذیب اور معاشرے کا خالصتاً انتظامی و ثقافتی مسئلہ ہے جسے شدید عقائد کا لباس پہنا کر بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ اگر یوں کہا جاے کہ موجودہ عیسوی سال(شمسی کیلنڈر) اور اسلامی سال(جسے ہجری یا قمری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے) دونوں ہی اپنے آغاز سے موڈیفائڈ ہو کر یہاں تک پہنچے ہیں تو کئی لوگ اس بات پہ حیرانی کا اظہار کریں گے مگر حقیقتاً ایسا ہی ہو چکا ہے۔

دنیا بھر میں یکم جنوری کو سالِ نو کا آغاز ہوتا ہے لیکن یہ ہمیشہ سے سال کا پہلا دن نہیں تھا۔ کیلنڈر میں جنوری پہلا مہینہ اور اس کی یکم تاریخ سال کا پہلا دن کیسے بنے۔ اس سوال کا جواب قدیم روم کی تاریخ سے ملتا ہے۔
آج دنیا کے اکثر ممالک میں گریگورین تقویم یا کیلنڈر رائج ہے۔ اس کیلنڈر کو پہلی مرتبہ کیتھولک پوپ گریگوری نے اکتوبر سن 1582 عیسوی میں متعارف کرایا تھا۔ اس تقویم میں سورج کے گرد زمین کے چکر مکمل ہونے کی مدت کو ایک سال قرار دیا گیا ہے۔
گریگورین کیلنڈر 46 قبل مسیح میں رومن فرماں روا جولیئس سیزر کے بنائے گئے ”جولین“ کیلنڈر سے بہت ملتا جُلتا ہے۔ اس میں اکثر مہینوں کے نام بھی رومی اساطیر کے کرداروں پر ہیں۔ لیکن آج کے برخلاف ابتدائی رومن دور میں سال میں 10 مہینے اور 304 دن ہوتے تھے۔

دنیا کا پہلا کیلنڈر مرتب کرنے کا سہرا قدیم مصری تہذیب کے سر جاتا ہے۔ تقریباً 3000 سال قبل مسیح میں مصریوں نے پہلا شمسی کیلنڈر (Solar Calendar) ترتیب دیا۔
یہ کیلنڈر سورج کے گرد زمین کی گردش پر مبنی تھا اور 365 دن پر مشتمل تھا، سال کو 12 مہینوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر مہینے میں 30 دن ہوتے تھے جبکہ اضافی 5 دن سال کے آخر میں شامل کیے جاتے تھے۔
یہ کیلنڈر دریائے نیل کی سیلابی کیفیت اور زراعت کی منصوبہ بندی کے لیے بنایا گیا تھا۔
دیگر تہذیبوں(Civilizations) نے ابھی اپنے اپنے کیلنڈر بناے لیکن مصری کیلنڈر سب سے زیادہ منظم اور سائنسی بنیادوں پر قائم سمجھا جاتا ہے۔

کیلنڈرز کی تاریخ بھرپور اور دلچسپ ہے جن میں مصری کیلنڈر، بکرمی کیلنڈر، جولین کلینڈر اور گریگورین کیلنڈر، چینی کلینڈر، یہودی کیلنڈر اور پھرقمری کیلنڈر یا عُرفِ عام میں ہجری کیلنڈر شامل ہیں۔

برصغیر میں رائج بکرمی کیلنڈر کی تاریخ قریب 57 سال قبل مسیح تک ملتی ہے۔ اس کیلنڈر کا نظام چاند اور سورج کی حرکات و سکنات پہ مشتمل ہوتا ہے جس سے ہندو تہوار، مذہبی تقریبات اور زراعت کے امور کا تعین کیا جاتا ہے۔
بکرمی کیلنڈر یا وکرم سموتھ یا دیسی کیلنڈر کا آغاز غیر ملکی حملہ آوروں کی فتح کے بعد راجہ وکرمادتیہ کی یادگار اور انتظامی امور کے طور پر متعارف ہوا۔ دیسی کلینڈر یا بکرمی کلینڈر عیسائی کیلنڈر سے تقریباً 57 سال آگے چل رہا ہے مطلب وکرم سموتھ کرمچاری اس وقت سال 2082 میں جی رہے ہیں۔

عیسائی کیلنڈر یا شمسی کیلنڈر سترہویں صدی عیسوی تک اپریل سے شروع ہوتا تھا۔ فرانس میں سترہوں صدی عیسوی تک یکم اپریل کو سال کا پہلا دن ہوتا تھا، رومی اس مہینے کو اپنی دیوی سے منسوب کر کے مقدس سمجھتے تھے اور سال کے پہلے دن کو ہنسی خوشی کے ساتھ مناتے اور مذاق کرتے جو بعد میں اپریل فول کے نام سے مشہور ہوا۔
موجودہ عیسائی کلینڈر کو پہلی مرتبہ کیتھولک پوپ گریگوری نے قریب سن 1582 عیسوی میں متعارف کرایا جو کہ 46 سال قبل مسیح شروع ہونے جولیئس سیزر کے بنائے گئے جولین کیلنڈر سے بہت ملتا جلتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جولیئس سیزر نے ریاضی اور فلکیات کے ماہرین سمیت اس وقت کے زراعت کے ماہرین کی ٹیم سے مل کر کیلنڈر مرتب کیا تا کہ موسمیاتی تبدیلی اور فصلوں کی کاشت کے حوالے سے مشکلات کم ہوں۔

ہجری کیلنڈر جسے عُرفِ عام میں اسلامی کیلنڈر کہا جاتا ہے یہ تقویمی نظام چاند کی حرکات و سکنات کے اوپر انحصار کرتا ہے جس وجہ سے اسے قمری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری کیلنڈر اسلامی مذہبی رسومات میں مددگار ثابت ہوتا ہے جسے بالخصوص رمضان کے روزوں، عیدین اور حجِ بیت اللہ کے دنوں کا تعین کیا جاتا ہے۔
ہجری کیلنڈر کا آغاز سن 622 عیسوی میں شروع ہوا جب پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کی۔ واضح رہے کہ پیغمبرِ اکرم ﷺ ہجرت نے 26 صفر کو ہجرت شروع کی، تین دن غارِ ثور میں رہے اور یکم ربیع الاول میں مکہ کی حدود سے نکل کر یثرب(مدینہ) کی حدود میں داخل ہوئے جبکہ 8 ربیع الاول کو قباء نامی جگہ پر مسجد قباء کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد 12ربیع الاول کو مدینہ شہر تشریف فرما ہوئے۔ دلچسپ تاریخی بات یہ ہے کہ ہجرت کا عمل پورا سال رہا جو اگلے سال ربیع الاول میں مکمل ہوا اور اس کے ریاستِ مدینہ کا انتظامی ہجری کیلنڈر متعارف ہوا جو کہ ربیع الاول سے شروع ہوا اور بعد از پیغمبرِ اکرم ﷺ سلسلہ خلافتِ راشدہ کے کچھ ادوار تک بھی جاری رہا جسے بعد میں انتظامی امور کی نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور اجتہادی فیصلہ دے کر محرم کے مہینہ سے شروع کیا گیا جیسا اسلام سے پہلے قمری کیلنڈر میں رائج تھا۔
ہجرت سے پہلے بھی عرب میں قمری کیلنڈر کا نظام انہی مہینوں کے نام سے رائج تھا جن میں چار مہینوں(محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) کو اشہرِ حرام یعنی حرمت والے مہینے کہا جاتا تھا اور ان میں جنگ و جدل ممنوع تھا۔ ان مہینوں میں مذہبی رسومات جیسے کہ حج( جو کہ اسلام سے پہلے بھی عرب قبائل کی ایک مذہبی رسم تھی) کو سر انجام دیا جاتا۔ اس کے علاوہ ثقافتی میلوں، تجارتی قافلوں اور سفر کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔
بعض اوقات قبیلہِ قریش اشہرِ حرام کی ترتیب تبدیل کر دیتے جسے ”نسئی“ کا نظام کہا جاتا تھا تا کہ ان مہینوں میں جنگ و جدل کو جائز بنایا جا سکے مگر بعد از اسلام پیغمبرِ اکرم ﷺ نے نسئی کے نظام کو ختم کروا دیا۔

دوستان! ہمارے ملکِ عظیم پاکستان کی عظیم بھولی بھالی قوم کا خاصہ ہئ کہ ہر چیز ہر بات پہ شدید مذہبی عقائد و نظریات کا خول چڑھا دیتی ہے جس سے ہمارے ملک کی تقریباً آدھی عوام پیینتالیس فی صد دماغ سے اوپر سوچ ہی نہیں پاتی کیونکہ بعض حضرات نے مذہب اور بالخصوص مسلک کا لاک لگایا ہوتا ہے کہ اگر یہاں سے آگے سوچا تو نرگ میں جاو گے۔ اس حالت کا کسی کا اعلی تعلیم یافتہ ہونا یا واجبی تعلیم ہونے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اکثر اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی ایک محدود دائرے سے باہر یا سوچتے نہیں یا سوچنے سے گھبراتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے ایسے نظریات منظرِ عام پہ آتے ہیں جو کہ گلوبل ویلج کے دور میں جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ اللہ کریم کی وحدانیت کا اقرار، خاتم الانبیاءﷺ کی نبوت پہ ایمان اور انکے بتائے گئے فرض احکامات و تعلیمات کی پیروی سے انسان ہمیشہ مسلمان رہتا ہے باقی جو جتنا قُربِ الہی حاصل کرنا چاہے وہ اتنی محنت کرتا ہے۔ پاک نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پہ عمل کرنا درجہ بہ درجہ اپنا منصب بڑھانا ہے۔ اہلِ کتاب کے ساتھ کھانا پینا حتی کہ شادی تک جائز ہے اور علاقائی ثقافت و انتظامی امور و رواج سے کبھی بھی منع نہیں کیا گیا سوائے اس کے کہ وہ اوپر بتائے گئے بنیادی عقائد سے ٹکرائیں۔

برصغیر پاک و ہند میں قریب دو سو سال پہلے تک دیسی کیلنڈر اور ہجری کیلنڈر رائج تھا۔ بعد ازاں انگریز آئے اور شمسی کیلنڈر کا نظام رائج ہوگیا اور انگریزوں کی ایڈمنسٹریشن یا قبضے میں رہنے والے تینوں ممالک پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں شمسی کیلنڈر یا عُرفِ عام میں عیسوی کیلنڈر سرکاری طور پر رائج ہو اور اس میں قباحت بھی نہیں کہ یہ کسی بھی ریاست کا خالصتاً انتظامی امور کا معاملہ ہے نہ کہ مذہبی۔
اکثر احباب محرم الحرام کو اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ سمجھ کر مبارکبادیں دے رہے ہوتے ہیں مگر ربیع الاول میں میلاد مبارک کو بدعت کہتے ہیں۔ جنوری سے شروع ہونے والے نئے سال کو بدعت اور کفری نظام سے مربوط کر کے توبہ توبہ کر رہے ہوتے ہیں جبکہ اسی نظام کے تحت پوری دنیا کے انتظامی امور چل رہے ہیں۔ ایسے بھولے احباب سے اگر پوچھا جائے کہ آپکی ہجری کیلنڈر کے مطابق تاریخِ پیدائش کیا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں کہ نوے فی صد عوام کو اسکی ہجری کیلنڈر مطابق نہیں بلکہ شمسی کیلنڈر/عیسوی کیلنڈر مطابق ہی تاریخِ پیدائش کا ریکارڈ یاد ہوتا ہے۔

حاصلِ کلام! دنیا آگے نکل رہی ہے جب کہ ہم ابھی تک یکم جنوری اور یکم محرم میں پھنسے ہیں اور کچھ بھولے نوروز کی عقیدت پہ پھول نچھاور کرتے ہیں جبکہ ان تینوں دنوں کا اسلام کے بنیادی اصولوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

کپاس کی پیداوار خطرے میں

بدھ جنوری 22 , 2025
پاکستان ان دنوں کپاس کی پیداوار شدید خطرے سے دوچار ہے۔ جو دنیا کے بڑے کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا تھا
کپاس کی پیداوار خطرے میں

مزید دلچسپ تحریریں