پروفیسر عاصم بخاری کی طنزیہ شاعری

پروفیسر عاصم بخاری کی طنزیہ شاعری

تبصرہ۔۔۔۔
مقبول ذکی مقبول ، بھکر
عاصم بخاری کے اس موضوع سے مناسبت رکھتے متعدد اشعار میرے دل و دماغ میں مچل رہے ہیں مگر میں ان کے اس شعر سے اپنی تحریر کا آغاز کرنا چاہوں گا ۔

جامعہ کا لیا کسی نے نام
ذہن میں آ گیا بہاول پُر
شاعر معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے ۔ حادثات و واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو شاعر کے لاشعور پر ان مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔
اگرچہ طنز کا لفظ تنقید کے جیسے ہمارے معاشرے میں کچھ اچھے معنوں میں مستعمل نہیں
۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اس قدر قبولِ عام حاصل نہیں ، لیکن عاصم بخاری کے ہاں یہ تنقید برائے تنقید اور طنز برائے طنز والا معاملہ نہیں ۔ان کی شاعری میں طنز کا نشتر بہت خفیف، ہمدردانہ اور فکر انگیز ہے جو کہ قاری اور معاشرے کو سوچنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اس طنز کا مقصود توجہ دلانا کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر غور کرے ۔ کس سمت جانا ہے اور آدمی کس طرف رواں ہے ۔ ان کے شعری طنز سے کسی قسم کی تضحیک اور کسی کی تذلیل کا کوئی پہلو نہیں بل کہ قوم کے درد مند دل کے ساتھ سب کی توجہ اخلاقی و سماجی امراض کی طرف کراتا ہے ۔ سچ تو یہ ہےکہ ایسا خفیف طنز قاری پر ناگوار نہیں گزرتا بل کہ اسے خیر خواہانہ انداز میں جھنجھوڑتا ہے ۔ ان کے طنز میں مزاح کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے ۔
معروف محقق و نقاد ، شارق رشید (کراچی) اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں۔
٫٫ مزاح تو بہت لوگ لکھ لیتے ہیں مگر طنز و مزاح مشکل کام ہے جو عاصم بخاری نے آسانی سے کیا ہے ،،
معاشرتی رویوں پر ان کی کڑی نظر ہے ۔ ان کا مشاہدہ بلا ہے یاداشت ان کی بہت زیادہ ہے ۔ معاشرے میں پیش آنے والےحالات و واقعات ان کے دل و دماغ پر دُور رَس اثرات مرتب کر جاتے ہیں ۔ زمینی حقائق کی ایک طنزیہ جھلک دیکھیں۔

پہلے اک آدھ کوئی ، لیتا تھا
رشوت اِک آدھ اب ، نہیں لیتا
اس شعر میں انھوں ہمارے معاشرے کی مکمل اور حقیقی تصویر کس مہارت سے پیش کی ہے کہ ہر باضمیر شخص اعتراف اور افسوس کیے بغیر نہیں رہ سکا۔

ایک اور سماجی ومعاشرتی رویے کو انھوں نے کس سلیقے سے پیش کیا ہے ۔ ان کے ہر شعر کا موضوع اور زاویہ مختلف ہوتا ہے ۔ ان کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ گھریلو تصویر کشی دیکھیے ۔

کار والوں کی تو قسمت میں سعادت یہ نہ تھی
کام آیا باپ کے٫٫ بے کار ،، بیٹا ہی فقط

اس شعر میں کمال ذومعنویت کا تیر چلاتے ہوئے بخاری نے صاحبِ ثروت اولاد پر طنز کیا ہے ۔ اسے آئینہ دکھایا ہے کہ اپنے طرزِ عمل پر غور کریں ۔ کیا یہ شرمناک رویہ ہمارے معاشرے میں نہیں پایا جاتا ۔؟

عاصم بخاری نے اپنی شاعری کا موضوع صرف گل وبلبل کو ہی نہیں بنایا ۔ زندگی کے ہر شعبہ پر انہوں نے شعر کہے ۔ ایک اور سماجی روش کو یوں لیتے ہیں۔

قطعہ
کہاں پیغمبری پیشے کی خاطر
وہ اس رستے پہ چلنا چاہتا ہے
نکمے پن کی خاطر ہی بخاری
پروفیسر ، وہ بننا چاہتا ہے
آج ہماری درس گاہوں اور جامعات میں ایسی عملی تصاویر اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ کیا یہ رویہ ذمہ دارانہ ہے معلم کو معاشرہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے لہٰذا اسے بھی اپنے مرتبے کا پاس رکھتے ہو ۓ حق ادا کرنا چاہیے ۔
عاصم بخاری کی شاعری میں موضوعاتی تنوع بہت زیادہ ہے ۔ عموماً کسی بھی قلم کار کا موضوعاتی و محسوساتی دائرہ بہت محدود ہوتا ہے مگر عاصم بخاری کے ہاں اس کے برعکس ملتا ہے ان کا موضوعاتی دائرہ بہت وسیع ہے ۔
اس شعر میں انھوں نے ملازم طبقہ کے رویہ پر طنز کرتے ہوۓ ایک نیا انداز اپنایا ہے ۔ شعر دیکھیں
موت کی حشر نشر کی تھوڑی
فکر اگلے سکیل ، کی اُس کو
عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ملازمین اپنے فرض سے غافل ہو کر حقوق کے حصول کے لیے غیر معمولی اور غیر ضروری حد تک کوشاں اور متفکر دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے گرد یہ رویہ بکثرت پایا جاتا ہے۔ جسے عاصم بخاری نے اپنے طنز کا موضوع بنایا ہے ۔
دنیا پیسے کے چکر میں اندھا دھندپڑ گئی ہے حتٰی کہ اسے اپنے جہان میں آنے کا مقصد بھی بھول گئی۔ دولت سے پیار نے رشتوں محبت مامتا اور شفقتِ پدری تک لاپرواہی و احسان فراموشی کا ایک منظر عاصم بخاری کے قطعہ میں دیکھیں

بادل اس پر ہوس کے یوں چھاۓ
سوچتا ہوں کہ ہے ، یہ کیا مانگے
بیمہ کے پیسوں ، کے لیے بیٹا
باپ کی موت کی ، دعا مانگے

عاصم بخاری کے عمیق مشاہدہ کی داد دیتے ہوۓ اس انسانیت سوز رویے کی تائید ہوتی ہے کہ آج کے معاشرے کو کیا ہو گیا اتنی مادیت ، سب مایا ہے ٫٫ تو کرب ناک ہے اور اس کی مثالیں آج کے معاشرے میں قدم قدم پر موجود ہیں ہماری سماجیات و اخلاقیات کے اس عالم آدمیت و انسانیت نوحہ دیکھیں

قطعہ

آپ حیراں نہ اک ، زمانہ ہے
سننے والا ہر ایک ہے ششدر
دیکھا میں نے بغیر ڈوری کے
آج رہ میں گلاس ، کولر پر

آج کی تربیت اور تعلیم کا یہ عالم ہے کہ راستے میں لگے مسافروں اور راہ گیروں کی خاطر لگاۓ جانے والے پانے کے کولر کے پاس رکھے گلاس کو بھی چرا لیا جاتا ہے یا پھر وہ گلاس زنجیر کے ساتھ قید ہوتا ہے تاکہ اسے کوئی چُرا نہ لے ۔حیرت ہے ۔
اسی طرح ہر موسم اور ہر رت کے ہمارے معاشرتی رویے بھی افسوس ناک اور تشویش ناک ہیں۔جن کو بخاری نے اپنےشعری طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔ قطعہ ملاحظہ ہو

غیربستا نہیں ، یہاں کوئی
ہے مسلمان یہ ، سبھی بستی
ختم رمضان ، ہونے والا ہے
چیزیں ہو جائیں گی سبھی سستی

ہمارے اک ایک سماجی و اخلاقی رویے پر ان کے ہاں شعر ملتا ہے اور اس پر ہمدردانہ اور مفکرانہ و فلسفیانہ استفہامیہ طنزیہ انداز بھی ، سچ تو یہ ہے کہ رمضان المبارک میں ہمارا رویہ افسوس ناک اور شرم ناک ہوتا ہے جس پر انتہائی سنجیدگی سےغور کرنے کی ضرورت ہے ۔ عاصم بخاری کے غور فکر کا انداز فلسفیانہ ہے معاشرے کے رویوں پر حیرت کا اظہار وہ اپنے اشعار میں مختلف ہئیتوں میں مختلف زاویوں سے کرتا رہتے ہیں ۔ زمانے کی ناقدری پر کچھ اس انداز سے طنز کرتے ہیں ۔

تعزیتی اجلاس
قطعہ
دستور ہے اِس نگری کا مرنا ہے ضروری
جیون میں بخاری یہاں تعظیم نہ ممکن
ہوسکتے ہیں افسوس کے اجلاس تو لیکن
جیتے جی کوئی عزت و تکریم نہ ممکن

ان کے ہاں سوچوں اور موضوعاتِ تنقید میں مثبت رویہ پایا جاتا ہے عاصم بخاری کا مقصودِ دل آزاری نہیں بلکہ اصلاح اور توجہ دلاو ہے۔

پردہ داری اور شرم حیا کے والے سے یونی ورسٹی جو تعلیم و تربیت کا مرکز اور تہذیب کا گہوارہ ہوا کرتی تھی آج کے حسب حال ٫٫ دوپٹہ ،، کے عنوان سے یوں طنز کا نشتر چلاتے ہیں ۔

سر پہ دوپٹہ ، کرنے والی یہ
اعلیٰ تعلیم اس نے پائی کیا
یُونی ورسٹی گئی ہے یہ تھوڑی
اِس کو معلوم بے حیائی کیا

گداگری پر کچھ اس انداز سے فرد شعر کی صورت طنز کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

بھیک انسان مانگتے دیکھا
میں نے دیکھا نہیں پرندے کو

زمانے کی جدت اور اپنی غفلت کچھ یوں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔

دنیا ریسرچ میں ، بخاری اور
ہم ہیں مشغول مرغ بازی میں

اِسی مزاج اور اسی سوچ پر طنز کا حامل ایک شعر جس میں اس اجتماعی تنزلی کا سبب بڑے افسوسناک انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔

ہم سے دُور اس لیے ، اُجالے ہیں
ہم نے تِیتر بٹیر ، پالے ہیں

آج کے دور کی مغرب پرستی اور ثقافت کے نام پر فحاشی کی یلغار کو اس درد مندانہ انداز اور طنز یہ لہجہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں ۔

جسم کر دیتے اور بھی عریاں
کیسے ملبوس آ گئے اب کے

اِسی طرح ایک اور مقام پر مغربی اندھی تقلید کے آگے شرم و حیا کا لفظی بند باندھتے ہوئے پڑھی لکھی عورت پہ احساس کے طنز کا نشتر کچھ اس انداز سے چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔
قطعہ ملاحظہ ہو۔

آخر بیٹی کس کی ہے یہ مشرق کی
جب بھی دیکھی پورے کپڑوں میں ہی اکثر دیکھی ہے
مغرب سے دُوری کی ہی یہ عاصم ساری برکت ہے
ہم نے ہر "ان پڑھ "عورت کے سر پر چادر دیکھی ہے

برصغیر پاک و ہند کی معیشت و معاشرت اور ترقی پذیری میں زمانے سے پیچھے رہ جائے جانے کا سبب طنزیہ انداز میں یوں ایک شعر میں پیش کرتے ہیں ۔

کار خانے سب اُن کے حصے میں
ہِند میں صرف ، صنعتیں شعری
آخر پر معاشرتی رویے اور مقصد حیات نمود و نمائش اور پیسے کیسے کی ہوس پر چوٹ کرتے ہوئے عاصم خاری کہتے ہیں

بیٹے کو ڈاکٹر ، بنانا ہے
مقصد انساں بنانا تھوڑی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

سفرِ وقت کا انقلاب

منگل جنوری 21 , 2025
میرا خیال ہے کہ سفرِ وقت اس لیئے بھی ممکن ہے کیونکہ ہم اپنے دماغ میں ماضی، حال اور مستقبل کی اشکال بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔
سفرِ وقت کا انقلاب

مزید دلچسپ تحریریں