نئے پنشن رولز :ڈبل پنشن لینے پر پابندی

نئے پنشن رولز :ڈبل پنشن لینے پر پابندی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

حکومت کے مطابق ملک کے ابتر معاشی حالات کے تناظر میں پنشنوں کی ادائیگی قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ بن چکی ہے۔ بجٹ کا ایک کثیر حصہ پنشنز کی مد میں خرچ ہوتا ہے جو ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس پس منظر میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا مطالبہ ہے کہ پنشن نظام میں اصلاحات کی جائیں تاکہ مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے پنشن نظام میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں جن کا مقصد پنشن اخراجات کو قابو میں رکھنا اور قومی خزانے پر مالی دباؤ کم کرنا ہے۔

پاکستان میں پنشن کا نظام برطانوی دورِ حکومت سے وراثت میں ملا تھا ۔ ابتدا میں یہ نظام صرف فوجی اور سول سرکاری ملازمین تک محدود تھا لیکن وقت کے ساتھ اس کا دائرہ کار بڑھتا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد پنشن نظام کو مختلف ادوار میں بہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور مالیاتی بدانتظامی کے باعث یہ نظام ایک مالی بوجھ بن گیا۔ 1970 کی دہائی میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافے کے لیے اصلاحات کی گئیں لیکن ان کے نتائج طویل المدتی مسائل کی شکل میں سامنے آئے۔

وفاقی حکومت نے حالیہ اصلاحات کے تحت سرکاری ملازمین کے لیے ڈبل پنشن لینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یکم جنوری 2025 سے پنشن کا تعین آخری دو سال کی اوسط تنخواہ کی بنیاد پر کیا جائے گا جبکہ اس سے پہلے یہ آخری تنخواہ پر مقرر کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ پنشن میں کسی بھی اضافے کو ایڈہاک بنیادوں پر رکھا جائے گا تاکہ مالیاتی نظم و ضبط کو یقینی بنایا جا سکے۔حاضر سروس ملازمین پنشن کے اہل نہیں ہوں گے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت مقرر ہونے والی پنشن کو بیس لائن تصور کیا جائے گا اور ہر تین سال بعد پے اینڈ پنشن کمیشن اس کا جائزہ لے گا۔ ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ ملازمت کے دوران پنشن کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔

سرکاری ملازم میاں بیوی ریٹائرمنٹ کی صورت میں علیحدہ علیحدہ پنشن کے مستحق ہوں گے جبکہ بیوہ اپنی پنشن کے ساتھ شوہر کی پنشن بھی حاصل کر سکے گی۔

گزشتہ سال متعارف کرائی گئی کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم کے تحت سرکاری ملازمین اپنی بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد اور حکومت 20 فیصد حصہ پنشن فنڈ میں جمع کرائے گی۔ یہ اسکیم پنشن کے اخراجات کو قابو میں رکھنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

رواں مالی سال کے بجٹ میں پنشن کی مد میں 1.014 ٹریلین روپے مختص کیے گئے ہیں۔ حالیہ اصلاحات سے توقع ہے کہ اگلے مالی سال میں قومی خزانے پر مالی بوجھ کم ہوگا اور اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ لیکن یہ اصلاحات کافی نہیں ہیں۔ بدعنوانی کی شکل میں چلنے والی غیر قانونی معیشت کا خاتمہ بھی ضروری ہے، جس کا حجم پنشن بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق پنشن نظام میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ دیگر مالیاتی مراعات، جیسے بجلی، پٹرول اور گیس کی رعایتوں پر نظرثانی کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر حکومت ان مراعات کو محدود کرے تو سیکڑوں ارب روپے کی بچت ممکن ہے۔

غیر قانونی معیشت پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔

عوام کو پنشن اصلاحات کی ضرورت اور فوائد کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ ان کی مزاحمت کم ہو۔

پنشن کے نظام کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کیا جائے تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔

پنشن فنڈز کو منافع بخش منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے قومی خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔

پنشن نظام میں حالیہ اصلاحات ایک مثبت قدم ہیں لیکن ان کا کامیاب نفاذ ہی اصل چیلنج ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان اصلاحات کو دیگر مالیاتی اقدامات کے ساتھ مربوط کرے تاکہ قومی خزانے پر دباؤ کم ہو اور معیشت مستحکم ہو سکے۔ اصلاحات کا دائرہ کار صرف پنشن تک محدود نہ ہو بلکہ بدعنوانی، غیر قانونی معیشت اور مالیاتی مراعات کے نظام کو بھی شامل کیا جائے۔

Title Image by Alexa from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں