بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی


بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

پاکستان  میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل ملک  کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ بجلی چوری، واجبات کی عدم وصولی اور بدعنوانیوں کے مختلف پہلو ملک کی معاشی مشکلات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں لیکن سیاسی اور بیوروکریٹک مزاحمت کی وجہ سے یہ اصلاحات اب تک مؤثر ثابت نہیں ہو سکیں جوکہ غربت کی چکی میں پسی ہوئی عوام پر  ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔

پاکستان میں بجلی کی تقسیم کا نظام ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں بجلی کی نجکاری کے تحت تقسیم کار کمپنیوں کا شعبہ  قائم کیا گیا تاکہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنایا جا سکے۔ تاہم  ان کمپنیوں کی ناقص کارکردگی، غیر پیشہ ورانہ رویے  اور بدعنوانی نے اس نظام کو مزید کمزور کر دیا۔ بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی جیسے مسائل نے ان کمپنیوں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا۔

وفاقی حکومت نے چھ ماہ قبل ایک مؤثر حکمت عملی تیار کی جس کا مقصد بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں  میں اصلاحات لانا تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت ملتان اور سکھر سے آغاز کرتے ہوئے انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن  اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کو تعینات کیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد بدعنوانی کو ختم کرنا اور واجبات کی وصولی کو یقینی بنانا تھا۔ لاہور اور کوئٹہ میں بھی اس حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آئے  لیکن سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) میں اس فیصلے کے نفاذ میں بڑی رکاوٹیں درپیش رہیں۔

سیپکو کے حوالے سے وفاقی حکومت کو طویل سیاسی اور غیر سیاسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم  حالیہ دنوں میں حکومت نے سکھر میں بھی اصلاحات کے نفاذ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ایک جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق سیپکو کے سی ای او اور سول آرمڈ فورسز کے سیکٹر کمانڈر کو اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی)  اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو ڈی ایس یو کے ممبران کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

ملتان اور لاہور میں اس حکمت عملی کے تحت حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ واجبات کی وصولی میں بہتری، بجلی چوری کی روک تھام  اور بدعنوانی کے خاتمے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ کوئٹہ میں بھی اس اقدام کے مثبت اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔ ان کامیابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھر میں بھی ان اصلاحات کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

بجلی کے نظام کی درستگی اور معیشت کی بہتری کے لیے وفاقی حکومت کی کوششیں قابل ستائش ہیں  لیکن یہ مسئلہ صرف وفاقی سطح پر حل نہیں ہو سکتا۔ سندھ کی تمام بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بدعنوانی ختم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو بھی بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی اقدامات کی حمایت کرے اور ان کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

سیاسی اثر و رسوخ کے باعث اصلاحات کے نفاذ میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے۔

بدعنوانی کے خاتمے کے لیے سخت قوانین اور ان کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ احتساب کے عمل کو مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے عوام میں شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ میڈیا اور سماجی تنظیموں کے ذریعے عوام کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ مسائل قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

بجلی کی تقسیم کے نظام میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے چوری اور دیگر مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسمارٹ میٹرز اور خودکار نظام کے ذریعے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کے مسائل پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ اگرچہ وفاقی حکومت کی حالیہ کوششیں اصلاحات کی جانب ایک مثبت قدم ہیں لیکن ان کو کامیاب بنانے کے لیے سیاسی اور بیوروکریٹک مزاحمت کو ختم کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومتوں اور عوام کا تعاون بھی ان مسائل کے حل کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ان اصلاحات کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف بجلی کے نظام کو بہتر بنائے گا بلکہ ملکی معیشت کو بھی مستحکم کرے گا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

مزید دلچسپ تحریریں