نعتیہ مشاعرے کی روداد
راقم: سید حبدار قائم
معروف صحافی اور کالم نگار ملک ممریزخان نے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد 13 رجب 2025 کو اپنے گھر میں نعتیہ مشاعرہ کا اہتمام کیا اٹک کی پچیس سال سے کوشاں ادبی تنظیم کاروانِ قلم ایک بار پھر متحرک نظر آئ اور اس نے اس روحانی محفل میں مکمل تعاون اور بے لوث عقیدت سے رنگ بھر دیے
مشاعرے کی نظامت کے فرائض کاروانِ قلم کے روح رواں شاعر و ادیب نزاکت علی نازک نے ادا کیے
تلاوت اور نعت کا اعزاز نعلین حیدر سلطان کو حاصل ہوا اس نعتیہ مشاعرہ کی صدارت عالمی نعت گو شاعر و ادیب سید شاکر القادری چشتی نظامی نے کی اور اس مشاعرے میں مہمانِ خصوصی عالمی نعت گو شاعر و ادیب سعادت حسن آس تھے معروف شاعر نادر وحید کالم نگار و شاعر اقبال زرقاش اور نعت گو شاعر و ادیب سید حبدار قائم کے علاوہ راجہ مختار بھی مشاعرہ میں شریک ہوۓ
ملک ممریز خان نے مشاعرے کو معروف نعت گو شاعر حضرت نذر صابریؒ کے نام کر دیا اور ان کی خدمات کا ذکر کیا
شعرا کے سخن پاروں کی بات کی جاۓ تو ہر شاعر نے اپنے بے مثال کلام پر بہت داد سمیٹی جن میں سے چند شعرا کا کلام قارئین کی نذر کرتا ہوں
کاروان قلم کے روحِ رواں نزاکت علی نازک نے
منقبت کے یہ اشعار پیش کیے
کعبے کے مقدر میں علی آۓ ، علی بس
یہ تاج ولایت کا علی پاۓ ، علی بس
سرکار کے ہاتھوں پہ جو مسکاۓ علی بس
سرکار کے کاندھوں پہ جو لہراۓ علی بس
بس تاج ولایت کا علی پاۓ ہوۓ ہیں
کعبے کی زیارت کو علی آۓ ہوۓ ہیں
دوسرے شاعر اقبال زرقاش تھے جن کے خوبصورت کلام نے سماں باندھ دیا جو کہ نذرِ قارئین کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے
ظلمات کو مٹانے سرکار آپؐ آۓ
حق راستہ دکھانے سرکار آپؐ آۓ
ظلم و ستم کے ہاتھوں غرقاب آدمی تھا
انسان اسے بنانے سرکار آپؐ آۓ
وحشت کے راستوں میں جو قتل ہو رہے تھے
غم سے انہیں چھڑانے سرکار آپؐ آۓ
زرقاش جس کسی نے سرکار کو پکارا
اس کے غریب خانے سرکار آپؐ آۓ
اقبال زرقاش کے بعد سید حبدار قائم نے سب سے پہلے منقبت کے اشعار پیش کیے اور اس کے بعد نعت رسول مقبول صلى الله عليه واله وسلم پیش کی ملاحظہ کیجیے
زمین سے نظر ہٹی، گئی فلک سے پار جب
جہاں گئی جدھر گئی نظر کہے علیؑ علیؑ
علی مری تو سانس میں اتر گئے کچھ اس طرح
یہ تن کہے، یہ من کہے، جگر کہے علیؑ علیؑ
ضیائے شمس میں گیا، نگاہِ شمس نے کہا
چلو گے جس طرف بھی رہگزر کہے علیؑ علیؑ
سید حبدار قائم کی نعت کے چند اشعار بھی ملاحظہ کیجیے
چل پڑے کاروان کرنوں کے
سوئے طیبہ مکان کرنوں کے
خواب میں اُنؐ سے ہوں ملاقاتیں
دل میں ہیں سب گمان کرنوں کے
جن میں سرورؐ کے پاک جلوے ہیں
وہ ہیں رب کے جہان کرنوں کے
جس جگہ آپؐ نے قدم رکھے
اب وہاں ہیں نشان کرنوں کے
معروف شاعر نادر وحید نے بھی ایک خوبصورت کلام پڑھا جو قارئین کی نذر کرتا ہوں
پتہ چلے گا ذرا سا کرے جو غور کوئی
علی علی ہے علی سا نہیں ہے اور کوئی
علی کا ذکر کیا کر کہ یہ عبادت ہے
علی کی دھن میں جیا کر کہ یہ عبادت ہے
علی کا نقش کف پا بھی احترام کے ساتھ
ملے تو چوم لیا کر کہ یہ عبادت ہے
مشاعرے کے مہمانِ خصوصی اٹک شہر کے معمر نعت گو شاعر سعادت حسن آس نے منقبت اور نعت پیش کی انہوں نے منقبت پر بہت داد سمیٹی جسے حاضرین نے بہت پسند کیا کلام سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے
دنیائے مودت کی ہے پرواز علی سے
پایا ہے دو عالم کا ہر اک راز علی سے
ہجرت میں نبوت کی تھی ہم راز ولایت
افشا یہ ہوا صبح و مسا راز علی سے
مرحب کیا تلوار سے دولخت برابر
سیکھو تو مساوات کا انداز علی سے
مہمانِ خصوصی سعادت حسن آس کی نعت سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے
آپ نے جس کی کہی ہے رحمت اللعالمین
کیا! گھڑی وہ آ گئ ہے رحمت اللعالمین
آپ کے ارشاد ظاہر ہو رہے ہیں چار سو
جھوث پر مبنی ہوئ ہر آدمی کی گفتگو
ساری ںرکت اٹھ رہی ہے رحمت اللعالمین
کیا! گھڑی وہ آ گئ ہے رحمت اللعالمین
صدرِ محفل سید شاکر القادری چشتی نظامی کا اسلوب سب سے جدا تھا وہ پہلے حدیث پڑھتے پھر اس کا ترجمہ کرتے پھر اسے منظوم کر کے پیش کرتے سامعین نے ان کے کلام سے بہت لطف اٹھایا ان کے کلام سے چند سطور قارئین کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے
فرماتے ہیں خدریؓ کہ ہم انصار مدینہ
رکھتے تھے منافق کی پرکھ کا یہ قرینہ
بد باطن و عیار سمجھ لیتے تھے اس کو
جس کو علی سے حسد و نفرت و کینہ
تھے یارِ وفادار فدائی بھائی
انصار و مہاجر سبھی بھائی بھائی
پیغمبر اکرم نے یہ فرمایا علی سے
دارین میں تم ہو میرے بھائی بھائی
پیغمبرِ ذیشان کا فرمانِ جلی ہے
بے شبہ علی سے ہوں میں اور مجھ سے علی ہے
کوئی مری جانب سے ادا کر نہیں سکتا
الا کہ میں خود یا میری جانب سے علی ہے
نعتیہ مشاعرے کے آخر میں سید شاکر القادری نے ملک و قوم کے لیے دعا مانگی اور مشاعرے کی کاروائ کا اختتام کیا حاضرین مجلس کے لیے ملک ممریز خان نے ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا ہوا تھا جسے سب نے تناول کیا اس طرح ایک روحانی محفل کا اختتام ہوا
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |