پاکستان کی مدر ٹریسا حدیقہ کیانی
انسان کو ذہنی اور شخصی طور پر ہمیشہ ارتقاء پذیر مخلوق کے طور پر زندہ رہنا چایئے۔ دنیا کے چند گنے چنے لوگ گلوکاری، فیشن اور گلیمئر وغیرہ کو چھوڑ کر نیکی، بھلائی اور اصلاح معاشرہ کے کاموں کی طرف پلٹ آتے ہیں۔ کار خیر کی دنیا کی دیگر بہت سی خواتین کے ناموں میں جرمنی کی ڈاکٹر رتھ فاو’ اور ہندوستان کی مدر ٹریسا سرفہرست ہیں۔ ڈاکٹر رتھ فاو’ نے تو پوری زندگی کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے پاکستان میں گزار دی۔ کافی عرصہ ہوا شوبز کو خیر باد کہہ کر پاکستان میں ماضی کی معروف اداکارہ اور گلورہ حدیقہ کیانی بھی اس فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔
گیت نگاری کے بعد حدیقہ کیانی کا سب سے بڑا اعزاز انسانیت پسند ہونا ہے۔ وہ کئی ملکی اور عالمی اعزازات حاصل کر چکی ہیں۔ کیانی نے دنیا بھر میں گلوکاری کی، انہوں نے لندن البرٹ ہال اور کینیڈی سینٹر میں بھی گلوری کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے متعدد مقامی اور بین الاقوامی ایوارڈ جیتے۔ سنہ 2006ء میں حدیقہ کو موسیقی کے شعبے میں پاکستان کا چوتھا بڑا شہری اعزاز "تمغہ امتیاز” دیا گیا۔ سنہ 2010ء میں انھیں اقوام متحدہ ڈویلپمنٹ پروگرام کی خیر سگالی سفیر بنایا گیا جس سے وہ پاکستان کی اقوام متحدہ میں پہلی گڈول سفیر بن گئیں۔ سنہ 2016ء میں حدیقہ کو ایک معاصر اخباری گروپ نے "پاکستان کی انتہائی بااثر اور طاقتور خواتین” کے حوالے سے اپنے پاور ایڈیشن میں شامل کیا۔
اصلاح معاشرہ اور نیکی و بھلائی کے لیئے اپنی زندگیاں وقف کر دینے والے یہ مخصوص اور محترم لوگ نہ صرف معاشرے اور دنیا میں نیک نام کماتے ہیں بلکہ وہ خود اپنی زندگیوں کو بھی آخرت کے لیئے "ٹرانسفارم” کر لیتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ منتخب لوگ دنیا کے قیمتی ترین لوگ ہیں جو اپنے سے زیادہ دوسروں کے لیئے جیتے ہیں کہ دوسروں کے کام آنے اور انہیں خوشیاں دینے سے جو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے وہ دوسرے کسی کام سے نہیں ملتا۔ لھذا روحانی ترقی ہی انسان کی اصل اور حقیقی ترقی ہے۔ اگر آپ دولت، بنگلوں، ہیرے جواہرات اور سونے چاندی کے ڈھیر لگا لیتے ہیں اور آپ روحانی طور پر ترقی نہیں کر پاتے یا آپ کی شخصیت ان مادی چیزوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہے تو اس سے آپ ترقی نہیں بلکہ تنزلی کرتے ہیں۔
دنیا کے وہ لوگ بہت خوش قسمت ہیں جو اپنی زندگی کی روحانی طور پر کایا پلٹ لیتے ہیں۔ انسان کے اختیار اور ارادے کا اس سے بہتر مصرف کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان معاشرے کی اصلاح اور بھلائی کرنے سے پہلے اپنی اصلاح کرے۔ حدیقہ کیانی نے سب سے پہلے خود کو تبدیل کیا، اپنے کردار و سیرت، اخلاقی رویوں کی اصلاح کی اور اب وہ معاشرے میں نیکی اور بھلائی کے کام انجام دے رہی ہیں۔
"بوہے باریاں” گانے سے مشہور ہونے والی حدیقہ کیانی نے سیلاب متاثرین کو گھر بنا کر دینے اور وہاں بوہے باریاں لگانے تک، حدیقہ کیانی نے 200 گھر تعمیر کرنے کا مشن لیا مگر انہوں نے 370 گھر بنوائے، بلوچستان کے سیلاب متاثرین کے لیئے کام کیا، وہاں میٹرنٹی ہوم، مساجد اور گروسری سٹورز وغیرہ کی سہولیات کے ساتھ دیگر ضروریات زندگی بھی فراہم کیں۔
حدیقہ کیانی اس مشہور قول کی جیتی جاگتی تعبیر ثابت ہو رہی ہیں جس میں کہا گیا تھا، "اگر آپ ایک آدمی کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک فرد کو تعلیم دیتے ہیں، لیکن اگر آپ ایک عورت کو تعلیم دیتے ہیں تو آپ ایک قوم کو تعلیم دیتے ہیں۔ حدیقہ کیانی نے پہلی بار 2005ء میں زلزلے سے ہلاک افراد کے ایک ایسے بچے کو گود لیا تھا جو پیدائش کے چند ہی دن بعد یتیم ہو گیا تھا۔ حدیقہ کیانی نے اس بچے کو باپ کا نام دینے کی وجہ سے دوسری شادی کی اور خلعہ بھی اسی وجہ سے لیا کہ وہ اس بچے کی اعلی پرورش اور تعلیم و تربیت کر سکے۔ اس بچے کا نام ناد علی ہے اور آج کل وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ 2022ء کے سیلاب زدگان کی مدد میں بھی کیانی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ عورت کے بارے اس حکایت کو حدیقہ کیانی نے انسانیت کے لئے بھلائی کے کئی دیگر کارہائے نمایاں سرانجام دے کر سچ ثابت کیا ہے۔
لیو ٹالسٹائی کا ایک قول ہے کہ تم مجھے اپنا مذہب مت پڑھاؤ، میں تمہارا مذہب تمہارے کردار میں دیکھنا چاہتا ہوں۔” انسان کا ماضی جو بھی ہو اس کا حال اور مستقبل اس کے موجودہ کام اور کردار سے طے ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہمیں نیکی اور معاشرے کے فلاح و بہبود کےکام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نیکی اور خدمت صرف ضرورت مندوں پر دولت خرچ کرنے کا نام ہی نہیں، کسی مجبور کی حوصلہ افزائی کرنا اور مشکل وقت میں خلوص نیت سے اس کے ساتھ کھڑا ہونا بھی نیکی ہے۔
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کی سالانہ 100 خواتین 2024ء کی فہرست میں حدیقہ کیانی بھی شامل ہیں اللہ پاک انہیں ان نیک کاموں کا اجر عطا فرمائے۔
میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |