سلطان محمود غزنوی پر حکومتی حملہ

سلطان محمود غزنوی پر حکومتی حملہ

تحریر: جوسف علی

غزنہ اور افغانستان کابل سے اٹھنے والے مسلم ہیرو سلطان محمود غزنوی کو ساری دنیا مانتی ہے۔ عالمی تاریخ برصغیر کے اس حملہ آور کو جو بھی نام و مقام دے ہمارے طلباء اسے کامیاب مسلمان جنگجو اور فاتح ہیرو ہی کے طور پر جانتے ہیں۔ لھذا ہمارے تعلیمی نظام کی تاریخ میں بچوں کو یہی پڑھایا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 کامیاب حملے کیئے اور ہر بار ہندو راجاؤں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔

ہمارے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ دنوں محمود غزنوی کے بارے ایک متنازعہ بیان داغا جس کی بازگشت میڈیا میں ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں موصوف کہتے نظر آتے ہیں کہ، "میں نہیں مانتا، وہ محمود غزنوی تھا ہی نہیں، وہ تو آتا تھا اور لوٹ مار کر کے چلا جاتا تھا، ہماری تاریخ میں اسے یوں پینٹ کیا جاتا ہے جو میں نہیں مانتا۔” حالانکہ یہ سلطان محمود غزنوی ہی پہلا مسلم حکمران تھا جس نے پاکستان، ایران اور ہندوستان کے کچھ حصوں پر مسلم حکومت کی بنیاد رکھی جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک لمبے عرصہ تک حکومت قائم ہونے کا رستہ ہموار ہوا۔ 1519ء میں افغانستان کابل کے بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو یہاں مغلیہ خاندان کی حکومت قائم ہو گئی جو برصغیر پاک و ہند پر 300 سال سے زیادہ عرصہ تک قائم رہی۔ دراصل خواجہ آصف نے یورپی و برطانوی اور ہندو مورخین کے نقطہ نظر کی تصدیق کی ہے جس میں سلطان محمود غزنوی کو "ڈاکو” اور "لٹیرا” کہا گیا ہے۔

افغانستان اپنی حفاظت اور سلامتی کی ایک قابل فخر تاریخ رکھتا ہے جہاں دسمبر 1979ء کے روسی حملے اور بعد میں 9/11 کے بعد امریکی افواج کی چڑھائی سے پہلے بھی بیرونی عالمی طاقتوں نے اسے تاراج کرنے کی کوشش کی۔ 1841ء میں برطانوی فوج کو پہلی بار افغانستان میں شکست و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ سلطان محمود غزنوی ہی تھا جس کی نفرت میں گورنر جنرل آف انڈیا لارڈ ایلن برو نے 16 نومبر 1842ء کو حکم جاری کیا تھا کہ غزنی میں سلطان محمود غزنوی کے مزار کے دروازے اکھاڑ کر ہندوستان لائے جائیں۔ ایلن برو نے اپنے حکم نامے میں سلطان محمود غزنوی پر الزام لگایا تھا کہ سلطان محمود غزنوی نے یہ دروازے 1026ء میں سومناتھ کے مندر سے چرائے تھے۔ ایلن برو نے کہا تھا کہ محمود غزنوی ایک لٹیرا تھا۔ اب ڈھکے چھپے لفظوں میں ہمارے وفاقی وزیر نے بھی یہی بات دہرائی ہے کہ، "وہ تو آتا تھا اور لوٹ مار کر کے چلا جاتا تھا۔”

سلطان محمود غزنوی کو حسد اور تعصب کا شکار ہو کر بدنام کرنے کی یہ ایک دانستہ سازش تھی۔ محمود غزنوی پر لارڈ ایلن برو کے چوری کے الزام کی برطانوی حکومت نے تحقیق کروائی اور جب اس کا جھوٹ ثابت ہو گیا تو 9 مارچ 1843ء کو برطانوی پارلیمنٹ میں گورنر جنرل آف انڈیا کے جھوٹ پر باقاعدہ بحث ہوئی۔ تاہم لارڈ ایلن برو نے یہ سازش ہندوستان اور افغانستان کے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لئے کی تھی تاکہ متحدہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان آزادی حاصل کرنے کے لیئے متحد نہ ہو سکیں۔ برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی کا مشہور فارمولہ ہی یہ تھا کہ "تقسیم کرو اور حکومت کرو۔” (Divide and Rule) جس کا آغاز محمود غزنوی کے ہندوستان پر سترہ حملوں کو بنیاد بنا کر کیا گیا تھا۔

گو اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں یے کہ برصغیر میں اسلام کی ابتداء محمد بن قاسم اور محمود محمود غزنوی کے حملوں سے ہوئی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں اسلام مسلم صوفیائے کرام کی جدوجہد، اخلاق حسنہ اور ان کے کردار کی طاقت سے پھیلا۔ اس سے مغربی تاریخ دان یہ مدعی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلام کی ترویج "تلوار” کے زور پر ہوئی۔ اس پر مستزاد برصغیر میں جب 1857ء کی "جنگ آزادی” میں برطانوی قابض فوج کے خلاف ہندوستان میں بغاوت ہوئی تو برطانوی مصنفین نے حیلوں بہانوں سے محمود غزنوی کو ایک لٹیرے کے طور پر پیش کیا جس کا اصل مقصد ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان دوریاں پیدا کرنا تھا۔ انہی برطانوی مصنفین کی لکھی ہوئی تاریخ کو مدنظر رکھ کر کچھ ہندو انتہا پسندوں نے بھی محمود غزنوی کی جی بھر کردار کشی کی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کچھ مسلمان تاریخ نویسوں نے بھی کہانی میں رنگ بھرنے کے لئے سومناتھ پر محمود غزنوی کے حملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور اصل حقیقت الزامات کی دھند میں گم ہو گئی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب انتہاء پسند ہندو آر ایس ایس، ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے رہنما بابری مسجد پر حملے اور مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت و حقارت کی وجوہات پر تقریریں کرتے ہیں تو وہ محمود غزنوی کو لٹیرا اور ڈاکو قرار دینے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتے ہیں۔

حالانکہ ان ہندو فرقہ پرستانہ تنظیموں کے بھیانک کردار و عمل کی وجہ سے امریکی سی آئی نے بھی 19 جون 2018ء کو ان تنظیموں کو دہشت گردی کی لسٹ میں ڈال دیا تھا کیونکہ ان تنظیموں کی انسانیت سوز کاروائیوں کی وجہ سے بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں۔

سلطان محمود غزنوی پر حکومتی حملہ

اب جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی محمود غزنوی کو بالواسطہ طور پر لٹیرا قرار دیا ہے تو پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی نئے سرے سے بحث چھڑ گئی ہے کہ محمود غزنوی واقعی ایک ڈاکو اور لٹیرا تھا جو بھارت میں موجود ہندو مندروں سے سونا چاندی اور ہیرے جواہرات لوٹنے آتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ تب یہ مندر ہندوستان میں دفاع کے گڑھ اور جنگی سازشوں کی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہو رہے تھے۔ ہندو رائٹرز ہی نے یہ بھی لکھا ہے کہ سومناتھ میں مسلمانوں پر بہت ظلم ہوتا تھا اور روزانہ ایک مسلمان کو اس مندر کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ لھذا محمود غزنوی نے اسے مسمار کرنے ہی میں مسلمانوں کی عافیت محسوس کی۔

عزت مآب خواجہ آصف صاحب پاکستان کے وزیر دفاع ہیں اور ان کے محمود غزنوی پر الزام کے پس منظر میں اب ایک اہم ترین سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ بلفرض محمود غزنوی لٹیرا اور ڈاکو تھا تو پھر پاکستان نے اپنے میزائل کا نام محمود غزنوی کے نام پر کیوں رکھا؟ سوچنے کی بات ہے خواجہ آصف چونکہ وزیر دفاع ہیں تو کیا وہ غزنوی میزائل جسے حتف تھری بھی کہا جاتا ہے وہ اس کا نام تبدیل کروا دیں گے؟ اس کے علاوہ ابدالی میزائل (حتف ٹو) اور غوری میزائل (حتف فور) بھی ہیں جبکہ پاکستان کے ایک میزائل کا نام "شاہین” بھی ہے جو تصور پاکستان کے خالق اور قومی شاعر علامہ محمد اقبال کی حکیمانہ شاعری کا بنیادی فلسفہ ہے اور خود علامہ اقبال نے محمود غزنوی کے بارے فرمایا تھا کہ، "ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز، نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔” خواجہ آصف کہاں تک اپنے الزام کو آگے بڑھائیں گے؟ سلطان محمود غزنوی انتہائی نیک دل، صاحب کتاب اور حافظ قرآن تھے۔ آپ علامہ اقبال کی نظمیں "شکوہ” اور "جواب شکوہ” ہی پڑھ لیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ محمد بن قاسم، طارق بن زیاد اور "محمود غزنوی” جیسے مسلم مشاہیر کی تاریخ اسلام میں کیا اہمیت ہے۔

ممکن ہے کہ خواجہ آصف نے محمود غزنوی پر یہ الزام سہوا یا جوش خطابت میں آ کر لگایا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس پائے کے اعلی حکومتی عہدیدار کو اتنا تو سوچنا چایئے تھا کہ ہمارے تدریسی نظام میں محمود غزنوی کو کیا اہمیت دی گئی ہے اور اگر وہ اس کے برخلاف کوئی بات کریں گے تو اس کے طلباء اور پوری قوم پر تضاد پر مبنی کیا منفی اثرات پڑیں گے۔
ہمارے اکثر میزائلوں کے نام ایسے عظیم افغان جنگجووں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے پرانے زمانے میں ہندوستان کے مختلف راجاو’ں کو شکست دی تھی۔ پاکستانی میزائلوں کے ناموں کو افغان جنگجووں کے ناموں پر رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت کو باور کرایا جائے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام بھارت کے مقابلے کے لئے ہے اور اسے بتایا جا سکے کہ اس نے کوئی جارحیت کی تو اسے پتہ ہو کہ اس کا پالا کس قوم سے پڑا ہے۔ اگر وفاقی وزیر دفاع کی سطح کی شخصیت کا نقطہ نظر اس کے برعکس ہو گا تو یہ نہ صرف قومی مفاد کے برعکس ہو گا بلکہ اس سے ہماری نوجوان نسل میں اپنی مسلم تاریخ کے بارے میں بھی ذہنی کشمکش اور خواہ مخواہ کی نفرت پیدا ہو گی۔ یا تو ہم اپنی تاریخ کو تبدیل کریں یا اپنے طلباء کو ایسا صحت مند نظام تعلیم دیں کہ وہ اپنی تحقیق و جستجو سے خود ہی ایسے تاریخی حقائق تک پہنچنے میں آسانی محسوس کریں۔

ہمارے ایسے ہی غیر ذمہ دارانہ رویوں، بیانات اور تاریخی غلطیوں کے باعث محمود غزنوی سے قبل محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے کی وجہ سے کچھ سندھی قومی پرست عظیم الشان مسلم سپہ سالار محمد بن قاسم کو بھی لٹیرا قرار دیتے ہیں۔ لیکن محترم المقام خواجہ محمد آصف نے محمد بن قاسم کو لٹیرا نہیں کہا۔ ممکن ہے اس لئے کہ وہ عرب تھے۔ اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ایسے حکومتی نمائندے نوجوان نسل میں تضاد بھرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں ہمارے مستقبل کی نسل دولے شاہ کے چوہوں کی طرح اندھی اور گونگی بہری پیدا ہو ان میں سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو اور ان میں اتنا تضاد اور کشمکش بھر دی جائے کہ بس وہ اپنی آدھی عمر روایات ہی سے جھوٹ اور سچ کو الگ کرنے میں گزار دیں تاکہ ان حکمرانوں کی جہالت اور لوٹ مار کا احتساب نہ کیا جا سکے۔

ایک طرف ہمارا تعلیمی نصاب محمود غزنوی کو مسلم ہیرو قرار دیتا ہے اور یہ کیبنٹ منسٹر صاحب حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے اسے ڈاکو قرار دے رہے ہیں جو لوٹ مار کر کے واپس چلا جاتا تھا۔ خواجہ آصف صاحب یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ہمارے حکمران رہتے تو یورپ، امریکہ اور انگلینڈ میں ہیں اور ان کی جائیدادیں بھی انہی ملکوں میں ہیں مگر وہ اقتدار اور لوٹ مار کرنے کے لیئے پاکستان آتے ہیں اور جب اس سے فارغ ہوتے ہیں وہ واپس چلے جاتے ہیں۔

ایسے افراد کو کابینہ میں بھرتی کرنے اور ان سے ایسے متضاد بیانات دلوانے کا ایک اور اہم مقصد غربت، معیشت، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہوتا ہے جو خواجہ آصف جیسے گھاگ بخوبی انجام دے سکتے ہیں ورنہ وہ وزیر دفاع ہیں اور حکومت و فوج دونوں کے نمائندے ہیں جو اس محاورے کے مصداق خود جواب دہ ہیں کہ، "چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے۔” موصوف نے اس کا مدعی الٹا محمود غزنوی پر ڈالا ہے۔ ان کا یہ بیان تاریخ اور مطالعہ پاکستان کے حوالے سے انتہائی بودا بیان تھا جس کی حکومت یا افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے ابھی تک مذمت کی ہے اور نہ ہی خواجہ آصف نے اس کی کوئی معذرت کی ہے!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

ثاقب علوی کی نعت گوئی 

بدھ جنوری 8 , 2025
ثاقب علوی کے نعت کا وزن اور بحر دونوں نہایت موزوں ہیں جو پڑھنے والے کو روحانی سکون فراہم کرتے ہیں۔
ثاقب علوی کی نعت گوئی 

مزید دلچسپ تحریریں