سال نو کا فورٹ بلنڈر

سال نو کا فورٹ بلنڈر

Dubai Naama

سال نو کا فورٹ بلنڈر

سنہ 1812ء کی انقلابی جنگ کے دوران امریکہ نے 1816ء میں کینیڈا کیوبک اور نیویارک کی سرحدی پٹی کے درمیان ایک 34 فٹ اونچا "منٹگمری” کے نام سے مضبوط اور بہت بڑا فوجی قلعہ تعمیر کیا۔ جب یہ قلعہ 2 سال کی محنت شاقہ سے مکمل ہو گیا اور اس پر 125 توپیں بھی نصب کر دی گئیں تو امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سروے ٹیموں نے دریافت کیا کہ امریکہ نے وہ قلعہ غلطی سے ایک میل کے اندر تک کینیڈا کی سرزمین پر تعمیر کیا ہے۔ ایک بار امریکہ سے جب یہ غلطی ہو گئی تو سنہ 1819ء میں قلعہ کی مزید توسیع روک دی گئی اور اس امریکی غلطی کی وجہ سے منٹگمری قلعہ کا نام "فورٹ بلنڈر” پڑ گیا۔

اگلے 20 سال تک یہ قلعہ مقامی لوگوں کی کی لوٹ مار کا مرکز بنا رہا جہاں سے لوگوں نے اینٹیں، پتھر اور بلڈنگ میٹیریل نکال کر اپنے گھر اور عوامی عمارتیں بنائیں۔ سنہ 1842ء میں امریکہ اور برطانوی سفارت کاروں کا یہ اور دوسرے بہت سے سرحدی معاملات کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیئے ایک اجلاس ہوا اور 1783ء کے "پیرس معاہدہ” کے تحت یہ طے پایا کہ فورٹ بلنڈر واقعی کینیڈا کی زمین پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم یہ قلعہ دیگر زمین کے بدلے امریکہ کی تحویل میں دے دیا گیا جس کی دوبارہ تعمیر اور توسیع ہوئی اور اس قلعہ کو جنرل رچرڈ منٹگمری کے نام سے منسوب کیا گیا جنہوں نے 1775ء کے کینیڈا (اور برطانیہ) کے حملے کے دوران آزادی کی اس جنگ کے میں ایک ہیرو کی طرح جان کی قربانی دی تھی۔

جب سنہ 1860ء میں امریکی سول وار شروع ہوئی تو تب بھی اس قلعہ کی تعمیر جاری تھی۔ اس وقت یہ افواہ پھیل گئی کہ برطانیہ نے کینیڈا سے مل کر امریکہ پر حملہ کیا ہے۔ اس کے باوجود اس قلعہ کی تیزی سے تعمیر ہوئی اور اسے دوبارہ مکمل کر لیا گیا جس کی دیواریں پہلے والے بنیادی قلعے سے 48 فٹ اونچی تھیں۔ اس قلعہ کی تکمیل کے بعد 1886ء میں اس پر امریکی گیریسن کی 74 توپیں نصب کر دی گئیں جن کا منہ نارتھ کینیڈا کی طرف تھا۔

سال نو کا فورٹ بلنڈر

لیکن حیران کن حد تک آنے والے اگلے سالوں میں کینیڈا اور امریکہ کے حالات اتنے تیزی سے تبدیل ہوئے کہ قلعے کی تعمیر ایک لاحاصل سعی میں بدل گئی۔ حتی کہ اگلے 50 سالوں میں یہ پرانی توپیں جدید ہتھیاروں کے مقابلے میں ناکارہ سمجھ کر اس قلعہ سے ہٹا دی گئیں اور بعد میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان دوستی شروع ہو گئی۔

اس منٹگمری قلعہ کی باقیات آج بھی موجود ہیں اور زیادہ تر سیاح اس قلعہ کو سال نو کے موقعہ پر ضرور دیکھنے جاتے ہیں۔ آج بھی اس قلعہ کو "فورٹ منٹگمری” کی بجائے "بلنڈر فورٹ” کہا جاتا ہے۔ بھلے اس قلعہ کا سرکاری نام فورٹ منٹگمری ہے مگر لوگ اسے بلنڈر فورٹ کہتے ہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ انسانی نفسیات کی ناقابل معافی غلطیاں ہیں جنہیں تاریخ بھی معاف نہیں کرتی ہے۔ آپ بھلے بہادر اور جری ہوں، چاہے آپ کسی عظیم مقصد کے لیئے جان کی بھی قربانی دے دیں مگر لوگ آپ کی اس قربانی کو بھلا دیں گے اور آپ جو بڑی اور تاریخی غلطیاں کریں گے وہ انہیں ہرگز معاف نہیں کریں گے۔

سال نو کے موقع پر یہ تاریخی واقعہ لکھنے کی ضرورت اس لیئے پیش آئی کہ ہم میں سے ہر ایک زندگی میں بہت سی غلطیاں کرتا یے، کچھ سگین غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی قیمت ہم انسانوں کو زندگی بھر چکانی پڑتی ہے۔ ہم سب عام انسان ہیں ہم میں سے کوئی بھی کسی غلطی کی سزا عمر بھر نہیں بھگت سکتا ہے۔ ہمیں چایئے کہ ہم جو بھی کام کریں سوچ سمجھ کر کریں تاکہ ہمیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔

مرزا غالب نے کہا تھا کہ، دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض، اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے۔” زندگی عظیم ترین نعمت ہے۔ ویسے تو زندگی کا ہر لمحہ، دن، ماہ اور سال اچھا ہوتا یے کہ دکھوں بھری زندگی چاہے قیامت کی ہو موت سے بہرکیف بہتر ہی ہوتی ہے۔ اگر ہم خود ہی زندگی میں اتنی غلطیاں کریں کہ ہمارے اندر ایک "بلنڈر فورٹ” تعمیر ہو جائے تو پھر دنیا کیا خود زندگی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

سال نو پر کوئی بلنڈر مارنے سے پرہیز کریں زندگی بہت خوبصورت چیز ہے آپ نے 2024ء میں جو کیا سو کیا، 2025ء کو از سرنو سنوارنے کی کوشش کریں۔ عموما ہر نیا سال عہد نو کا سال ہوتا ہے۔ آپ بھی اس سال زندگی کے کچھ نئے عہد کریں تاکہ آپ کی آئیندہ زندگی میں آسانیاں پیدا ہو ہوں۔ آپ کو سال نو کی ڈھیروں خوشیاں مبارک ہوں۔ پھر یاد کراتا ہوں سال نو کو "بلنڈر فورٹ” نہیں بنانا ہے۔ دہرائی گئی غلطی فیصلہ ہوتی ہے۔ غلطیاں دہرا کر خود اپنے خلاف فیصلے مت کریں۔ زندگی کو بدلتے دیر نہیں لگتی بس آپ اس سال خود کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ اللہ پاک آپ کو کامیابیوں، خوشیوں اور صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین۔۔۔!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کیا      آپ      بھی      لکھاری      ہیں؟

اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

[email protected]

Next Post

مولانا محمد علی جوہر: شخصیت و شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

جمعرات دسمبر 26 , 2024
مولانا محمد علی جوہر 10 دسمبر 1878ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے تعلیمات اسلامی اور علمی شعور کا گہرا اثر
مولانا محمد علی جوہر: شخصیت و شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

مزید دلچسپ تحریریں