صحرا کی گود میں زندگی
درخت کائنات کا حسن اور زندگی کی ضرورت ہیں۔ باشعور اقوام جنگلات کی افادیت و اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک میں درخت اور جنگلات اگانے کے لیے خصوصی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ عوامی سطح پر آگاہی کے لیے شعور بیدار کیا جاتا ہے اور بیج سے پودے اور پودوں سے درختوں کو بچوں کی طرح نگہداشت کر کے کامیاب بنایا جاتا ہے۔
عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے رقبے کا 25 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا ضروری ہے کیونکہ یہی جنگلات ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں۔ یہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے جانداروں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زمینی کٹاؤ کو روکتے ہیں، درجہ حرارت کم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور حرارت و دیگر ضروریات کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جنگلات جنگلی حیات کی حفاظت کے ضامن ہیں، پرندوں کی آماجگاہ اور جانوروں کی پناہ گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک کا ذریعہ بھی ہیں۔ پانی کی سطح کو برقرار رکھنے میں بھی یہ مددگار ہیں۔
تاہم تشویشناک امر یہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کے صرف 5 فیصد رقبے پر جنگلات موجود ہیں جبکہ عالمی معیار تک پہنچنے کے لیے ہمیں اربوں درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ گو کہ گزشتہ حکومتوں نے ملک بھر میں شجرکاری کے لیے شعور اجاگر کرنے اور بڑی تعداد میں درخت لگانے کی کوشش کی، لیکن مطلوبہ ہدف سے ہم اب بھی کوسوں دور ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جامع منصوبہ بندی اور مستقل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ قوم کے ہر فرد کو آئندہ نسلوں کی بقا اور ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے خاتمے کے لیے درخت اگانے پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔
پاکستان کی زرعی زمینوں کو سیم و تھور سے بچانے کے لیے بھی درختوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ خداوندی نعمت ہے کہ درختوں کے بیج سے تھوڑی محنت اور توجہ کے ذریعے نئے درخت اگائے جا سکتے ہیں۔ یہی عمل تھل کے صحراؤں میں اپنایا جا رہا ہے، جس کا تجربہ بہت کامیاب رہا ہے۔ تھل کے صحراؤں میں سرسبز و شاداب جنگلات زندگی کی علامت بن کر خوبصورت نظارے پیش کر رہے ہیں۔
عام طور پر صحرا کا تصور آتے ہی ذہن میں ویران، ریتلے میدان اور نہ ختم ہونے والی وسعتوں کا نقشہ ابھرتا ہے۔ انہی صحراؤں کے بارے میں یہ کہانیاں بھی مشہور ہیں کہ یہاں بھٹکنے والے مسافر بھوک اور پیاس کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ ایسے افراد کی باقیات کبھی کبھار قافلوں اور شتر بانوں کو ملتی تھیں۔
صحرائے تھل میں ماحولیاتی تبدیلی اور درختوں کی آمد کا قصہ کچھ یوں ہے کہ حکومت پاکستان نے یہاں سڑکیں اور نہریں نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر زمین بحق سرکار ضبط کی اور صوبائی محکمہ مال پنجاب کے حوالے کر دی۔ 1951-52 میں محکمہ جنگلات نے حکومت پنجاب سے 24,773 ایکڑ رقبہ حاصل کیا اور اس چیلنج کا سامنا کیا کہ اس ویران صحرا میں درخت اگائے جائیں۔
محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے خیمہ بستیاں بسا کر، شدید گرمی اور جھلساتی دھوپ کا سامنا کرتے ہوئے درخت لگانے کا کام شروع کیا۔ دور دراز کے کنوؤں سے پانی لا کر درختوں کو سیراب کیا گیا اور مقامی لوگوں کو جنگلات کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ جلد ہی محکمہ جنگلات اور مقامی آبادی کی محنت کے نتیجے میں، صحرائے تھل بیری، کیکر، جنڈی اور سرس کے درختوں سے سرسبز نظر آنے لگا۔
ان درختوں کی بدولت آج صحرائے تھل میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور سریلی آوازیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ صحرا کی گود میں زندگی کا ظہور ہو چکا ہے۔ یہ کامیابی ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم محنت اور منصوبہ بندی سے کام کریں تو ویران علاقوں کو بھی سرسبز و شاداب بنایا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ تم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فساد نہ کرو۔ یہ ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں، جیسے درخت، پانی اور فطرت کی حفاظت کریں اور ایسی سرگرمیوں سے گریز کریں جو ماحول کو نقصان پہنچائیں یا اللہ کی مخلوق کے لیے مشکلات پیدا کریں۔
نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو اور وہ اسے لگا سکتا ہو تو وہ ضرور لگائے۔ یہ حدیث اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ درخت لگانا اور فطرت کی حفاظت کرنا ہمارے لیے کس قدر ضروری ہے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔
قرآن و حدیث ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ زمین کی حفاظت اور اسے سرسبز و شاداب بنانا ہماری ذمہ داری ہے اور ہر چھوٹا عمل، اگر نیت خالص ہو، فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ماحولیاتی مسائل کا حل نکالنا اور زمین کی بہتری کے لیے کام کرنا نہ صرف ہماری دنیوی بلکہ اخروی کامیابی کے لیے بھی اہم ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |